سانحہ بلدیہ اور اب جے آئی ٹی

پیر 13 جولائی 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

اگراس ملک میں کسی بھی سانحے یا مسلہ کو چھپانہ ہو تو اس کی جے آئی ٹی بنا دو عوام کی توجہ اس مسلہ سے ہٹا دو اس کے بعد جو کچھ مرضی کرتے رہے کراچی میں سانحہ بلدیہ جب ہوا تو اس کی جے آئی ٹی بنا دی گئی اور عوام کو ایک لالی پاپ دے دیا گیا سب جانتے ہیں کہ سانحہ بلدیہ میں کون ملوث تھا لیکن وہ اس وقت اتنا طاقت ور تھا کہ اسے سزا نہیں ہوسکتی تھی بلکہ وہ جسے چاہیے اسی اپنی مرضی سے سزا دے سکتا تھا کراچی میں قتل غارت جنرل مشرف کے دور سے ہی دوبارہ پھر شروع ہوگئی تھی لیکن ہمارے اس جنرل کو حکومت کرنے کے لیے بیساکھیوں کی سہولت چاہیے تھی اسی لیے اس نے بھی آنکھیں بند کرلیں اورعوام کو گاجر مولی کی طرح کٹنے دیا ان کریمنل سے وہ جسے چاہتے تھے اس سے بتہ وصول کرتے جو انکار کرتا اسے دن دیہاڑ قتل کردیتے کیا جنرل مشرف کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جو اس وقت کراچی کا امن تباہ کررہے تھے وہ کون لوگ تھے لیکن کیا کرتا ہمارا وہ کمانڈو اگر وہ ان کے خلاف کاروائی کرتا تو حکومت کی ایک بیساکھی ٹوٹ جاتی عوام کا کیاہے وہ کون سا ان کی اپنی ہے اگر شائد اپنی ہوتی تو وہ ان کے خلاف کاروائی کرتا ایسے ہی الطاف حسین کو حوصلہ ملتا گیا اور وہ کراچی کا امن تباہ کرتا گیا وہ کراچی جو کسی وقت روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا وہ شہر جو ایشیاء کا سب سے بڑا شہر تھا جو ملک پاکستان کا معاشی حب تھا بوری بند لاشیں چائنہ کٹنگ بھتہ چوری ڈکیتی قتل غارت اس شہر کی پہچان بنتی گئی آئے روز ایک سے بڑھ کر ایک نیا سانحہ اس شہر میں رونما ہوتا مجال کہ کوئی اس شہر کی توجہ دے ،شاعر نے شائد اسی شہر کے لیے یہ الفاظ کہے تھے
سبھی مصروف ہیں اپنی اپنی خریداریوں میں
کسی کی کوئی نظر نہیں میرے خسارے پے
جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو ایک جمہوری دور حکومت شروع ہوا تو عوام کو امید ہوئی کہ شائد اب اس شہر کے امن کے بارے میں ارباب اختیار سوچیں لیکن وہ بھی اس سے زیادہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے انھوں نے اس شہر کے امن کو بچانے کی بجائے اپنےکریمنل بنانے شروع کردیا عوام کو تو یہ توقع تھی کہ اب جرائم پیشہ افراد اپنے کیفرکردار کو پہنچیں گے لیکن اس کے الٹ ہی ہوا بلکہ جرائم پیشہ افراد کو سپوٹ شروع ہوگئی اگر عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپوٹ پڑھیں تو معلوم یہی ہوتاہے کہ سب اسی  شہر سے شائد کوئی بدلہ لے رہیے ہیں ایک طرف لیاری گینگ وار تو دوسری طرف الطاف حسین کا گینگ وار تھا جو اس روشنیوں کے شہر کا امن خراب کررہے تھے بھتہ لینے میں ان کا شائدمقابلہ تھا کہ کون زیادہ اس شہر سے بھتہ لیتا ہے اسی طرح ایک دن الطاف حسین نے بھتہ لینے میں بلدیہ فیکٹری کو اپنے کریندو سے آگ لگوا دی سینکڑوں لوگ زندہ جل کر موت کے منہ میں چلے گے اس لیے کہ ایک انسانیت دشمن نے فیکٹری سے اپنی مرضی کا بھتہ وصول کرنا  کا فیکٹری نے انکار کیا تو اس نے انسانیت کے اوپر یہ ظلم کر دیا کون تھا حماد صدیقی سب لوگ جانتے ہیں کہ اس کا الطاف حسین کے ساتھا کیا تعلق تھا جب یہ سانحہ ہوا تو بجائے ملزموں کو پکڑنے کے جے آئی ٹی کھیل شروع ہوگیا اور وہ کریمنل آزاد گھومتے رہے جب یہ جے آئی ٹی بنی تھی تب اس نے اپنا کام مکمل کرنے کےبعد رپوٹ شائع کیوں نہیں کی اس لیے  کہ ملزموں کو بچانا ہے اگر آج یہ شائع ہوگئی ہے تو اس کے مطابق ان ملزموں کو سزا بھی ملنی چاہیے تاکہ دوبارہ کوئی انسانیت دشمن اس روشنیوں کے شہر کی طرف دیکھے بھی نا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :