ہم کون ہیں؟

جمعہ 17 جولائی 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

74 سال بیت گئے ہیں، لیکن آج تک ہمیں اپنے آباؤ اجداد نہیں مل پائے۔ کبھی ہمیں عربون میں اپنی نسل تلاش کرنے کا بتا دیا جاتا ہے، کہ اسلام کی ترویج کا آغا ز عرب سے ہوا تھا، تو کبھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ہندوستانی ہندوؤں اور سکھوں کی اولاد ہیں، جنہون نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ سو ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم نے کن روایات کا دفاع کرنا ہے، اور کن روایات کو ترک کرنا ہے۔

حال ہی میں ہمیں ارتغرل غازی دکھا کر ترک روایات کا پاسدار بننے کو کہا جا رہا ہے۔مذہب کو روایات کا چھوٹا سا حصہ کہہ دیا جاتا ہے۔ اور روایات کو قومی تشخص کی دلیل بتا دیا جاتا ہے۔ بحیثیت پاکستانی، آخر ہم ہیں کون؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے: ہمیں کن روایات کا دفاع کرنا ہے؟ آریاؤں اور ہندوؤں کی روایات کا کہ جنہیں مغلوں نے تا دیر غلام بنائے رکھا؟ عرب شہزادوں کی روایات کا کہ جنہوں نے یمن کو خون میں نہلا دیا ہے؟ ایران کا کہ جنہوں نے یمن کو لہو لہان کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہے؟ افغان کا کہ جنہوں نے پاکستان میں اتنے دھماکے کیے ہیں کہ پاکستان گھٹنوں کے بل گر پڑا؟ یا ترکوں کا کہ جنہوں نے حال ہی میں اپنے اسلاف کی برتری ثابت کرنے کے لیے اسلامی تشخص کا دوبارہ ادراک کر لیا ہے؟
یونیورسٹی کے ہمارے اکثر دوستوں کا گمان ہے کہ مدارس فقط دہشت گردی سکھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارا سوال ہے کہ مدارس کے جس سلیبس کو دہشت گردی گردانا جا رہا ہے، یہ وہی سلیبس نہیں جس کا پرچار  امریکہ نوے کی دہائی میں جہادِ عظیم کے نام سے کیا کرتا تھا؟ یہ کس انداز کی ذہنی سہولت ہے؟ یہ کس معیار کا سچ ہے کہ وقت کے دریا کے ایک کنارے پر اس کا نام جہادِ عظیم اور دوسرے پر دہشت گردی رکھ دیا گیا؟ کیا سچ ایک گرگٹ کا نام ہے جو زمین کے ایک حصے میں کوئی رنگ اور دوسرے میں کوئی دوسرارنگ رکھتا ہے؟ کیا واقعی روشنی فقط آنکھوں کا دھوکہ ہے؟ کیازمین کے ایک حصے پر قرار دیا جانے والا سچ، دوسرے حصے کے لیے جھوٹ رہتا ہے؟
پھر یونیورسٹیوں میں اکثر لوگوں سے سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان محض ایک ذہنی اختراع کا نام ہے۔

ہمارے ایک عزیز کتب بین دوست کہ جنہوں نے اتنی زیادہ کتابیں پڑھ رکھی ہیں کہ ہمارا پورا گھر بھی لائبریری بنا دیا جائے تو اتنی کتابیں پوری نہ آئیں،فرماتے ہیں یہ پاکستان تو چند قبائلی سرداروں اور حکومت کے بھوکے سیاست دانوں کا ایسا راستہ تھا کہ جس سے حکومت پر ان کا تسلطقائم ہو سکے۔کتابیں کھنگالیں تو معلوم ہوا کہ آزاد حسین جیسے بہت سارے راہنما تھے کہ جنہیں ہماری درسگاہوں میں آزادی کے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، مگر وہ پاکستان کے خلاف تھے۔

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ آزاد حقیقی مذہبی راہنما اور سیاسی لیڈر تھے۔ آزاد کہتے تھے کہ دنیا کے سب سے بڑے دھوکوں میں سے ایک دھوکہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ایک قوم بنایا جا سکتا ہے۔ اقبال کو اس بات سے سنگین اختلاف تھا۔ خود قرآن میں اللہ امتِ واحدہ کا ذکر کرتا ہے۔ کیا آزاد اقبال کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی دھوکے باز گردان رہے ہیں؟ یا تو آزاد سے منسوب یہ بات آزاد کی نہیں ہے، یا پھر آزاد کو قرآن کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔

کم سے کم ہماری دانست میں آزاد کا سیاسی قد کتنا ہی بڑا ہو، انہیں "مولانا" کہہ کر پکارنا کسی طور مناسب نہیں۔
پھر اپنی خود نوشت میں آزاد بیسیوں دفعہ اپنی کانگریسی صدارت کے گن گاتے ہیں۔ کتاب پڑھ کر شیخ رشید یاد آجاتے ہیں۔ مدعا بیان ہو نہ ہو، اپنی بڑائی ضرور بیان ہوتی ہے۔ پھر جناح کا ذکر جب بھی کرتے ہیں محمد علی کہہ کر پکارتے ہیں، اور موہن داس کو گاندھی جی۔

انگریز روایات کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ احترام کس ذکر میں ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، چہ جائے کہ آزاد کے سیاسی قد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، سوال یہ ہے کہ آزاد کو پاکستان میں ہیرو بنا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخص جو ہمارے ملک کے وجود کو ہی گناہِ کبیرہ جانتا ہو، اسے ہیرو بنا کر پیش کر دیا جائے، سلیبس میں پڑھایا جائے، مولانا پکارا جائے؟ یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں پڑھ کر پڑھا لکھا بن جانے والے لکھاری پاکستان کی پیدائش کو ہر روز کسی نہ کسی اخبار میں ایک المیہ اور ٹریجیڈی لکھتے جاتے ہیں۔


میرے آباؤ اجداد یہ سننے دیکھنے کے لیے جالندھر سے جڑانوالہ نہیں آئے تھے۔ میرے آبا نے قصائیوں سے گردنیں اس سوچ کی ترویج کے لیے نہیں کٹائی تھیں۔ اگر آزاد میرا ہیرو ہے تو کیونکر میں جناح کا دفاع کروں؟ کیوں نہ کہہ دوں کہ جناح اور اقبال سے تاریخی غلطی سرزد ہوئی؟
اگر میرے ہیرو ترک ہیں، میں کیوں دوسروں کو دوام بخشوں؟ اور اگر میرا کوئی بھی ہیرو نہیں ہے، اور اس ملک میں کسی بھی فرد کو کبھی بھی غدار، دہشت گرد، یا شہید قرار دیا جا سکتا ہے، میں کس کے واسطے یہاں زندگی کی صعوبتیں برداشت کروں؟
یہ کس انداز کی ذہنی صعوبت ہے؟ ہم کب تک کسی طبقے کو جہادی سے دہشت گرد اور پھر دہشت گرد سے شہید بناتے رہیں گے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں علم کی افزائش گاہ بنیں۔

ہر سال سینکڑوں سکالر پیدا کرنے والی ان درسگاہوں کو چاہیے کہ بالآخر طے کر ہی دیں کہ ملکِ پاکستان ایک تباہ کن غلطی تھی یا نہیں۔ اگر یہ نہیں تو کم سے کم اِس قدر حوصلہ اور ہوش مندی پیدا کریں کہ وہ تمام افراد جو تحریکِ پاکستان کے خلاف رہے، ان کو ہیرو کہنا چھوڑ دیں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ لوگ ملکِ پاکستان کے لیے کیا فتوے دیا کرتے تھے۔ آئیے، سب مل کر اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہماری نسلیں یہی سوچتے سوچتے مر جائیں گی کہ آخر ہم ہیں کون؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :