
ہم کون ہیں؟
جمعہ 17 جولائی 2020

اُسامہ خالد
یونیورسٹی کے ہمارے اکثر دوستوں کا گمان ہے کہ مدارس فقط دہشت گردی سکھاتے ہیں۔
(جاری ہے)
پھر یونیورسٹیوں میں اکثر لوگوں سے سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان محض ایک ذہنی اختراع کا نام ہے۔ہمارے ایک عزیز کتب بین دوست کہ جنہوں نے اتنی زیادہ کتابیں پڑھ رکھی ہیں کہ ہمارا پورا گھر بھی لائبریری بنا دیا جائے تو اتنی کتابیں پوری نہ آئیں،فرماتے ہیں یہ پاکستان تو چند قبائلی سرداروں اور حکومت کے بھوکے سیاست دانوں کا ایسا راستہ تھا کہ جس سے حکومت پر ان کا تسلطقائم ہو سکے۔کتابیں کھنگالیں تو معلوم ہوا کہ آزاد حسین جیسے بہت سارے راہنما تھے کہ جنہیں ہماری درسگاہوں میں آزادی کے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، مگر وہ پاکستان کے خلاف تھے۔ہمارے دوست کہتے ہیں کہ آزاد حقیقی مذہبی راہنما اور سیاسی لیڈر تھے۔ آزاد کہتے تھے کہ دنیا کے سب سے بڑے دھوکوں میں سے ایک دھوکہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ایک قوم بنایا جا سکتا ہے۔ اقبال کو اس بات سے سنگین اختلاف تھا۔ خود قرآن میں اللہ امتِ واحدہ کا ذکر کرتا ہے۔ کیا آزاد اقبال کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی دھوکے باز گردان رہے ہیں؟ یا تو آزاد سے منسوب یہ بات آزاد کی نہیں ہے، یا پھر آزاد کو قرآن کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ کم سے کم ہماری دانست میں آزاد کا سیاسی قد کتنا ہی بڑا ہو، انہیں "مولانا" کہہ کر پکارنا کسی طور مناسب نہیں۔
پھر اپنی خود نوشت میں آزاد بیسیوں دفعہ اپنی کانگریسی صدارت کے گن گاتے ہیں۔ کتاب پڑھ کر شیخ رشید یاد آجاتے ہیں۔ مدعا بیان ہو نہ ہو، اپنی بڑائی ضرور بیان ہوتی ہے۔ پھر جناح کا ذکر جب بھی کرتے ہیں محمد علی کہہ کر پکارتے ہیں، اور موہن داس کو گاندھی جی۔ انگریز روایات کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ احترام کس ذکر میں ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، چہ جائے کہ آزاد کے سیاسی قد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، سوال یہ ہے کہ آزاد کو پاکستان میں ہیرو بنا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخص جو ہمارے ملک کے وجود کو ہی گناہِ کبیرہ جانتا ہو، اسے ہیرو بنا کر پیش کر دیا جائے، سلیبس میں پڑھایا جائے، مولانا پکارا جائے؟ یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں پڑھ کر پڑھا لکھا بن جانے والے لکھاری پاکستان کی پیدائش کو ہر روز کسی نہ کسی اخبار میں ایک المیہ اور ٹریجیڈی لکھتے جاتے ہیں۔
میرے آباؤ اجداد یہ سننے دیکھنے کے لیے جالندھر سے جڑانوالہ نہیں آئے تھے۔ میرے آبا نے قصائیوں سے گردنیں اس سوچ کی ترویج کے لیے نہیں کٹائی تھیں۔ اگر آزاد میرا ہیرو ہے تو کیونکر میں جناح کا دفاع کروں؟ کیوں نہ کہہ دوں کہ جناح اور اقبال سے تاریخی غلطی سرزد ہوئی؟
اگر میرے ہیرو ترک ہیں، میں کیوں دوسروں کو دوام بخشوں؟ اور اگر میرا کوئی بھی ہیرو نہیں ہے، اور اس ملک میں کسی بھی فرد کو کبھی بھی غدار، دہشت گرد، یا شہید قرار دیا جا سکتا ہے، میں کس کے واسطے یہاں زندگی کی صعوبتیں برداشت کروں؟
یہ کس انداز کی ذہنی صعوبت ہے؟ ہم کب تک کسی طبقے کو جہادی سے دہشت گرد اور پھر دہشت گرد سے شہید بناتے رہیں گے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں علم کی افزائش گاہ بنیں۔ ہر سال سینکڑوں سکالر پیدا کرنے والی ان درسگاہوں کو چاہیے کہ بالآخر طے کر ہی دیں کہ ملکِ پاکستان ایک تباہ کن غلطی تھی یا نہیں۔ اگر یہ نہیں تو کم سے کم اِس قدر حوصلہ اور ہوش مندی پیدا کریں کہ وہ تمام افراد جو تحریکِ پاکستان کے خلاف رہے، ان کو ہیرو کہنا چھوڑ دیں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ لوگ ملکِ پاکستان کے لیے کیا فتوے دیا کرتے تھے۔ آئیے، سب مل کر اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہماری نسلیں یہی سوچتے سوچتے مر جائیں گی کہ آخر ہم ہیں کون؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اُسامہ خالد کے کالمز
-
کامیاب نوجوان
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
بچوں کی تربیت کیسے کریں
ہفتہ 25 دسمبر 2021
-
ضدی بچوں کا علاج
منگل 26 اکتوبر 2021
-
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ہیرو نہیں؟
پیر 11 اکتوبر 2021
-
خط بنام عمران خان
منگل 28 ستمبر 2021
-
ایک کشمیری نوجوان سے ملاقات
ہفتہ 23 جنوری 2021
-
ڈگری ڈگری ہوتی ہے
پیر 18 جنوری 2021
-
غدار کون؟
بدھ 6 جنوری 2021
اُسامہ خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.