راولپنڈی میراتھن ریس اور اداروں کا قابل ستائش کردار

اتوار 18 اکتوبر 2020

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

نوجوانوں کے تمتماتے چہرے مسرت سے لبریز تھے اور کمپیئر کے ولولہ انگیز نعروں کے جواب میں انکا رواں رواں چیخ چیخ کے بتا  رہا تھا کہ آج وہ اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرتے ہوئے کچھ کر گذرنے کا بیتاب ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے وقت قریب آ رہا تھا، ان کے اضطراب اور جوش میں اضافہ ہو رہا تھا۔  قریب سے گذرنے والے لوگ ان نوجوانوں کو حیرانی اور خوشی سے دیکھ رہے تھے اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھی ان پرجوش نوجوانوں کے درمیان کسی طرح شامل ہو جائیں۔

ان نوجوانوں کی خوشی دیدنی تھی گویا کہ انہیں قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کونسے منظر کی عکاسی کر رہا ہوں۔ یہ ایک ایسا خوبصورت منظر ہے جس کی عکاسی کرتے ہوئے شاید میں کماحقہ ایک فیصد بھی حق ادا نہ کر سکوں لیکن الفاظ کے پیراہن کے ذریعے آپ کے سامنے تصویر کشی کی کوشش شاید کچھ کامیاب ہو۔

(جاری ہے)

آگے بڑھنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ فروری 2020 ہی سے کورونا وائرس کی وجہ سے ملک گیر لاک ڈاون نے وطن عزیز کے نوجوانوں کو گھروں تک محدود کر دیا اورایک ایسے وقت میں جبکہ جوش و ولولے سے بھرپور یہ نوجوان شدید بیزاری کا شکار ہو چکے تو راولپنڈی شہر کے نوجوان ڈپٹی کمشنر کیپٹن انوار الحق نے اپنے وطن کے ان نوجوانوں کے لیے کچھ ایسا کرنے کی ٹھانی جس سے نہ صرف انہیں ایک دلچسپ بلکہ صحمتندانہ سرگرمی بھی میسر آئے۔

اس نوجوان ڈپٹی کمشنر نے اپنے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ اور اپنی رضاکارانہ سماجی ٹیم راولپنڈی وی فورس کے ساتھ دن رات مشاورت کے بعد اکتوبر میں راولپنڈی کی پہلی میراتھن ریس کا بندوبست کیا اور راولپنڈی کی پولیس، ٹریفک پولیس، ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو بھی نوجوان ڈپٹی کمشنر کی سوچ کی ہمنوا بن گئی۔ فیصلہ ہوا کہ گیارہ اکتوبر کو مرکزی شاہراہ مری روڈ پر میراتھن ریس کا انعقاد ہو گا۔


بالاآخر ریس کا دن آن پہنچا۔ ریس کے آغاز سے قبل جیسے ہی قومی ترانے کا آغاز ہوا تو فخرو انتساب سے دمکتے چہرے ایک وقار کے ساتھ ہم آواز ہو کر پاک سرزمین پر سایہء خدائے ذوالجلال کے اختتامی کلمات کے ساتھ سرجھکا کر صف آراء ہو گئے۔ میزبان کمپیئر کی جانب سے ہدایات ملتے ہی نوجوان کمان سے نکل تیر کی رفتار سے ریس کے مقام آغاز تک پہنچے اورطوفانی لہروں کی مانند اجازت ملتے ہی حد ساحل سے باہر نکلنے کو بیتاب دکھائی دیئے۔

ریس کے آغاز کے لیے فائر ہوتے ہی نوجوان گولی کی رفتار سے بھاگنا شروع ہوئَ اور صرف چند ہی منٹوں میں ساہیوال کے ہونہار نوجوان اختر علی نے جیت کی لائن کو عبور کرکے پہلی پوزیشن اپنے نام کر لی۔  اختر علی بھی کمال کا نوجوان ہے، یہ روزگار کے لیے راجہ بازار میں ٹھیلا لگاتا ہے اور ساتھ ساتھ سپورٹس کی سرگرمیوں میں حصہ لے کر اپنے نام اعزاز کرتا جاتا ہے۔

سبزی منڈی میں مزدوری کرنے والا 13 سالہ اکرام اللہ انڈر فورٹین میں پہلے نمبر پر آیا۔ ایسے کمال کے نوجوانوں کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوتا ہے اور یقین آتا جاتا ہے کہ ذرا نم ہو یہ مٹی تو بڑی زرخیز ہے ساقی۔
اس ریس کا سب سے بڑا چیلنج مری روڈ جیسی مصروف شاہراہ پر ٹریفک میں خلل ڈالے بغیر ریس کا انعقاد تھا۔ راولپنڈی ٹریفک پولیس نے اس چیلنج کو قبول کیا ۔

ریس کے انعقاد سے صرف ایک منٹ قبل ٹریفک کو بند کیا گیا اور ریس شروع ہوتے ہی چند منٹوں کے وقفے سے عقبی جانب ٹریفک کو چلا کر متبادل روٹس کی مدد سے ٹریفک کے بلا خلل بہاو کو یقینی بنایا گیا۔ صرف ایک گھنٹے کی قلیل مدت میں مری روڈ ٹریفک کے لیے مکمل طور پر کھل چکی تھی۔ اس مرحلے پر راولپنڈی پولیس کی جانب سے ریس کےشرکاء کو بھرپور احترام کے ساتھ سیکیورٹی مہیا کی گئی جبکہ ریسکیو سروس نے اس دوران نوجوانوں کو کسی حادثے کی صورت میں طبی امداد کا مکمل اہتمام کیا۔

اس طرح راولپنڈی کے تمام اداروں نے ملی یکجہتی کے ساتھ اپنے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اعتماد دیا کہ وہ آرام پرستی کو خیر باد کہتے ہوئے اپنےا داروں کے زیر سایہ صحتمند سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہیں اور ملک کی طاقت بنتے رہیں کہ نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد ہے،  تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر۔ اس پہلی میراتھن ریس سے ایک طرف جہاں نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے وہیں یہ بھی پتہ چلا کہ اگر ہمارے نوجوانوں کو کھیلوں کے بہترین مواقع فراہم کیے جاتے رہیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے ملک و ملت کا نام چہار عالم میں روشن کرسکتے ہیں۔

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ، پر یقین کے ساتھ میں راولپنڈی سپورٹس ڈیپارٹمنٹ اور ضلعی انتظامیہ و پولیس کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہیں نوجوانوں کے لیے ایک چراغ جلانے کی سعادت میسر آئی اور وہ یقیناً اس چراغ کو بجھنے نہیں دیں گے۔ پاکستان زندہ باد۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :