ہم بہت ہی خاص لوگ (Generationہی) ہیں

پیر 30 مارچ 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

جو لو گ اس وقت اپنی عمر کے چالیس ۴۰ سے ستّر ۷۰ سال کے درمیان ہیں بہت سارے حوالوں سے نہایت ہی خاص لوگ ہیں کیونکہ وہ اب اُس دنیا میں نہیں جی رہے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے تھے، دنیا اب ہر لحاظ سے بہت بدل گئی ہے، اتنا زبردست بدلاؤ گذشتہ صدیوں میں کبھی نہیں آیا، لگتا ہے جیسے ایجادات و تبدیلیوں کا ایک طوفان آیا ہوا ہے، چاہے وہ امن ہو، یا جنگ ، اخلاقیا ت ہوں یا اخلاقی تنزلی ہی کیوں نہ ہو۔

اگر ہم گذشتہ تجربوں کے تناظر میں اس کے مثبت پہلوؤں کی جانب دیکھیں تو ہم پاتے ہیں کہ دنیا نے سائنس، کمپیوٹر، ادویات، ذرائع رسد ، مواصلات و ابلاغ غرض ہر طرف زبردست ترقی کی ہے۔ نئی سے نئی ایجادات نے زندگی آسان کردی ہے ، فاصلے مٹا دئے ہیں، کمپیوٹر، روبوٹ ، سیل فون ، انٹرنیٹ نے دنیا کا قریب قریب نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ دوسری جانب ہم اگر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ منفی رجحانات میں بھی اسی تناسب سے زبردست اضافہ ہوا ہے ، جیسا کہ، بین الا جغرافیائی سیاسی بالا دستی کا حصول، عالمی دہشت گردی، عالمی جنگیں، کیمیائی ہتھیاروں کی جنگیں، ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ڈروں طیاروں کی تیاری، یہی وجہ ہے کہ آسانی کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا ایجادات نوع انسانی کے لئے ہر وقت خطرہ اور درد سری بھی بنی ہوئی ہیں جیسے کہ ہیکنگ، بلیک میلنگاور جانے کس کس قسم کے جرائم کیلئے ان ہی ٹیکنالوجیز کو استعمال کیا جاتا ہے، نئے نئے قسم کے ہتھیار بنی نوع انسان کو صفحہء ہستی سے مٹانے کیلئے تیار کر لئے گئے ہیں ۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان تمام تر ترقی کے باوجود انسان نئی نئی بیماریوں اور وباؤں کے آگے بالکل بے بس و مجبور نظر آتا ہے۔ چشم کشاء امر یہ ہے کہ مسلسل نئی نئی بیماریاں اور وبائیں منظر عام پر آرہی ہیں اور سوچنے پر مجبور کررہی ہیں کہ ۔ ایک طاقت ایسی بھی ہے جو ان سب سے بالاتر ہے، آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کہیں اللہ ہم سے ناراض تو نہیں ؟ اب آپ موجودہ کرونا کی وباء ہی کو مثال بطور لے سکتے ہیں تمام ترقی یافتہ ممالک بالکل بے بس و لاچار نظر آ رہے ہیں۔


ان تمام حقائق کے باوجود قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کوئی شہ نہیں بدلی تو وہ حضرت انسان ہیں، ہم نہ بدلے ہیں اور نہ تا قیامت بدلیں گے۔ (اگر اللہ نے چاہا تو)
 
ہم نے دیکھا کہ حیرت انگیز تبدیلیوں، اور دیگر تمام چیلنجز کے ساتھ ساتھ وبائی امراض بھی زبردست امتحان کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ اور ہم کس طرح ان سب کا مقابلہ کرتے ہیں یہ جتا تا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر کہاں کھڑے ہیں، پوری نوع انسانی کیلئے موجودہ کرونا وائرس کا وبائی حملہ اپنی ذات میں ایک نیا، انوکھا اور کڑا امتحان ہے، اب ہم اس کا جواب اپنے رویوں اور طریقوں سے کس طرح دے پاتے ہیں یہ بتائے گا کہ ہم کتنے ترقیافتہ اور متمدّن ہیں۔

ان مشکل حالات میں ہمارا رویہ ہی ہماری اصل شخصیت کو بے نقاب کر تا ہے۔
آپ کے مشاہدے میں ضرور آیا ہوگا کہ ہمارے درمیان ہی ایسے بہت سے ادارے اور لوگ ہیں جو اس مصیبت کو بھی موقع پرستی کی بھینٹ چڑھائے دے رہے ہیں اور پیسہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں اس کیلئے انہیں اخلاقی طور پر کتنا ہی گر نا پڑے وہ جانے کو تیار ہیں بلکہ جا چکے ہیں ۔

اہم ضرورت کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی ایک نہایت ہی کریہہ ، غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل ہے جو دنیا بھر میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ایک بڑا طبقہ ان افعال قبیحہ میں ملوث ہے اور اسے برا بھی نہیں مانتا بلکہ بالکل عام کاروبار ہی کے زمرے میں لیتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس موقع پرستی میں صرف چھوٹے عام تاجر ہی ملوث نہیں بلکہ اس میں بڑے بڑے کاروباری حضرات، ادارے یہاں تک کہ میڈیکل اسٹور اور ہسپتال تک شامل ہیں ۔


دوسری جانب دیکھیں تو بڑی ڈھارس بند ھتی ہے کہ ایسے پرفتن ماحول میں بھی ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو گرتوں کو تھام لیتے ہیں، کڑی کیسی بھی ہو مشکل وہ ہمت نہیں ہارتے اور مثال قائم کرتے ہیں ، نہایت حوصلہ افزا صورتحال اس وقت سامنے آتی ہے جب بہت سارے ایسے نیک دل لوگ بھی اسی معاشرے میں اپنی موجودگی کا احساس اپنی فلاحی سرگرمیوں اور عام لوگوں کی مدد کے ذریعے کرارہے ہوتے ہیں۔

جو اس وباء کو اللہ کی جانب سے ایک امتحان اور آزمائش بطور لے رہے ہیں اور اس سے نمٹنے کے تمام ممکنہ طریقے اور جتن کر رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح خود بھی اس سے بچ سکیں اور دوسروں کو بھی بچا سکیں۔ وہ کہیں لوگوں میں راشن بانٹ رہے ہوے ہیں تو کہیں مالی امداد کر رہے ہوتے ہیں ، کہیں ضروری طبّی سامان کی فراہمی کیلئے پیسے فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے اسی معاشرے میں لوگوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے یا اپنی کم علمی کی وجہ سے توہمات و رسومات میں مبتلا ہوکر اس کا حل جعلی پیروں، ڈھونگی باباؤں، ٹوٹکوں اور تعویزوں میں تلاش کر رہا ہوتا ہے، اور ان رسومات میں اس قدر ملوث ہوجاتے ہیں کہ شرک و بدعت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور بلا جھجھک ان پر عمل کرتے رہتے ہیں، بعض دیواروں پر لکھے جعلی باباؤں کے اشتہارات ہمارا منہ چڑ ا رہے ہوتے ہیں جس میں کرونا سے شرطیہ علاج کا تعویز دینے کی گانٹی دی گئی ہوتی ہے۔

شفاء کاملہ کی گارنٹی دی گئی ہوتی ہے ۔
تو یہاں ایک اور طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتا نظر آتا ہے کہ کچھ نہیں ہوتا سب ٹھیک ہو جائے گا، بالکل ڈرنے کی اور کوئی احتیاطی عمل یا تدابیر اختیار کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ کیونکہ اللہ سب ٹھیک کردے گا، ارے بھائی پہلے اونٹ کی رسّی باندھو، پھر اللہ پر توکل کرو، آنکھیں بند کرکے کنویں میں چھلانگ لگاؤ گے تو یقینا ڈوب ہی جاؤ گے۔

یہ دنیا دارلااسباب ہے یہاں تدبیر و دوا سے کام لینے کی دین و دنیا دونوں نے ہدایت کی ہے۔ جبکہ یہ لوگ جو کہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ کر جو موجودہ حالات میں نہایت اہم اور ضروری ہیں بلا وجواز خطروں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔
 
کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں جو لوگوں کو موجودہ حالات کے تناظر میں ان کے رویوں پر پرکھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، مگر گذشتہ حالات و تجربات کی روشنی میں یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ جلد یا بدیر یہ کرونا کی وباء بھی انشاء اللہ ختم ہوجائے گی اور زندگی پھر معمول پر آجائے گی۔

مگر جب یہ وقت گزر جائے گا اور زندگی پھر سے اپنے معمول پر آکر دوڑنے بھاگنے لگے گی تو لوگ انفرادی طور پر اور معاشرہ اجتماعی طور پر کیا اس بات پر کبھی غور کریگا کہ انہوں نے ان حالات میں کن طریقوں کو اپنایا تھا، کیا جو طریقے اپنائے گئے تھے وہ درست تھے؟ کیا ہم دنیا و آخرت دونوں طریقوں میں کامیاب رہے اور دنیاوی احتیاط و تدابیر کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنایا اور ہم نے کتنا توکل اپنے ربّ کی ذات پر کیا؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ یہ کرونا کی وباء اللہ کی ناراضگی کا مظہر ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ ہم سے پہلی اقوام کے ساتھ اللہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا رہا ہے جس کی گواہ نہ صرف تینوں آسمانی کتابیں بھی ہیں بلکہ دنیا کے تاریخ دان بھی اس کی تائید و تصدیق کرتے ہیں۔

ہم اگر خود سے سوال کریں کہ کیا ہم نے اس پورے معاملے سے کچھ سبق حاصل کیا، خود کو سدھارا، توبہ و استغفار کرکے اپنے ربّ کے حضور عاجزی سے لوٹ آئے یا مذید سرکش و باغی ہو گئے ہیں اور اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ ہمارا طریقہ کار ثابت کرے گا کہ اس مشکل وقت میں ہم اپنے رب سے جڑے رہے یا بغاوت و خرافات میں مشغول رہے۔ ان حالات میں ہمارا عمومی رویہ ہماری کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :