دینی مدارس میں طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات

منگل 14 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

 پاکستان بھر میں قریب 22,000 مدارس ایسے ہیں جو وفاق المدارس سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ اور قریب بیس لاکھ طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ، یہ مدارس بیسیوں سال سے نہایت عمدگی کے ساتھ ملک، قوم اور اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور یہاں سے فارغ التحصیل علماء ملک و ملت کیلے نفع کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ رجسٹرڈ مدارس کے متوازی بڑی تعداد ایسے مدارس کی بھی ہے جو نہ کہیں رجسٹرڈ ہیں نہ کسی کو جوابدہ، بلکہ گلی کوچوں میں بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کئے کام کر رہے ہیں۔

یہ مدارس گلی محلے میں کمیونٹی کی بنیاد پر کام کر رہے ہوتے ہیں ، اور لوگوں میں عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ ملک و ملت کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بوجہ شدید غربت کے اپنے بچوں کی تعلیم و کفالت سے قاصر ہے ان کے پاس آسان راستہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گلی محلے میں قائم مدرسوں میں داخل کرا دیں ، اسطرح بچوں کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست ہو جاتا ہے اور ساتھ ساتھ انہیں مذہبی تعلیم بھی مل جاتی ہے۔

(جاری ہے)

مگر یہ غیر تصدیق و اندراج شدہ مدارس بہت ساری تکلیف دہ کہانیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ جن میں خصوصاً کم عمر طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی سر فہرست ہے۔ ان گلی کوچوں کے مدارس کے نام نہاد معلم عموماً اچھی شہرت کے حامل نہیں ہوتے مگر علاقے میں اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور یہ اپنی مذموم حرکتوں میں لگے رہتے ہیں۔


یہاں اس حوالے میں ایسوسی ایٹڈ پریس (Associated Press - AP) کی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ بہت اہم ہے ، جس کے مطابق پاکستان میں مدارس میں کم عمر طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک وباء کی طرح بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس (Associated Press - AP) نے درجنوں پولیس آفیسرز، ڈاکٹرز ، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور خود متاثرہ بچوں اور ان کے رشتہ داروں سے مل کر معلومات اکھٹا کیں جن کی بنیاد پر یہ تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔

جس میں ا یسے بہت سے واقعات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے ، جن میں کم عمر لڑکے لڑکیوں کو معلموں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، اور پکڑے بھی گئے مگر ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہو سکی، کیونکہ عمومی طورپر علاقے کے لوگ جمع ہو کر مظلوم طالب علم کے گھر والوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ معلم کو معاف کرکے صلح کرلیں۔ اور عموماً ایسا ہو ہی جاتا ہے ، اگر وہ نہ معاف کریں تو ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ یہ مظلوموں کے خلاف باقاعدہ محاز قائم کرلیتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی دینی گستاخی کا مرتکب قرار دیکر انتقام کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے انہیں تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔

اس دوران جرم کے مرتکب کو فرار کرادیتے ہیں ۔ اگر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی کوشش بھی کی جائے تو یہ مذہب کی آڑ لیکر احتجاج اور تشدد پر اتر آتے ہیں راستے بند کر دیتے ہیں بلا تفریق سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصاں پہنچاتے ہیں۔ جب یہ مظلوم بچے بچیاں اپنی دکھ بھری کہانیاں سنا رہے ہوتے ہیں تو دل چاہتا ہے کے زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سما جائیں۔

دل و دماغ پر شرمندگی و افسردگی کا شدید اثر کئی دن تک باقی رہتا ہے۔
 ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ کوئی اندازہ نہیں کہ ان نام نہاد معلموں نے کتنے معصوم طلباء کو اپنی خباثت کا نشانہ بنایا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ عموماً نابالغ لڑکوں کو نشانہ بناتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ لڑکا عموماً ان کے جرم کا تذکرہ کسی سے نہیں کریگا۔

وہ یہ بھی کہنے لگا کہ اگر میرا بس چلے تو ان گھناؤنے جرائم میں ملوث لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دوں ، مگر یہ بڑے با اثر اور خطرناک لوگ ہیں۔ 
خود راقم کے مشاہدے میں چند ایسے گھناؤنے واقعات آئے کہ عقل آج بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ مثال کے طور پر ایک سفید ڈاڑھی والا عمر رسیدہ شخص مدرسے میں ایک اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ جو بہ مشکل اس کی ٹانگ کے برابر بھی نہ تھا اتنی کریہہ اور گھٹیا حرکت کر رہا تھا کہ اگر آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی یقین نہ آتا، اسی طرح ایک نوجوان معلم پکڑا گیا، جب اس سے پوچھا گیا کہ کب سے اس گناہ میں ملوث ہو، تو کہا کئی سال سے ، یعنی جانے کتنے معصوموں کا استحصال کر چکا تھا، مگر اس سے زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ جب اس سے پوچھا گیا کہ ، تم کو شرم نہیں آتی ایسا کرتے ہوئے؟ تو بولا کہ جب میں طالب علم تھا تو یہ سب کچھ تو میرے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے۔

یعنی ایک طویل داستان ہے جس کا ابتدائیہ ڈھونڈنا محض بھوسے میں سوئی تلاش کرنے جیسا ہوگا۔ ایک ایسا ہی واقعہ یوں ہے کہ ایک بنگالی مولوی ایک بچی کو مسلسل زیادتی کا نشانہ بناتا رہا، اور ناپاکی کی حالت میں ہی واپس مسجد آکر دوبارہ بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کر دیتا تھا۔ وہ پکڑا بھی گیا، خوب میڈیا ٹرائل بھی ہوا، مگر حاصل وصول وہی ڈھاک کے تین پات۔

حکومت وقت اور ہمیں مل کر اس کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں قانون سازی کی بھی شدید ضرورت ہے جس کے ذریعے اسطرح کے گھناؤنے جرائم کی سختی سے بیخ کنی کی جاسکے، اور اس میں ملوث چاہے کوئی بھی ہو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔ با لخصوص دینی مدارس کو اس فعل قبیحہ سے پاک کرنے کا فی الفور بندوبست کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ اسلام دشمن عناصر موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور ان واقعات کو آڑ بنا کر اسلام کی ساکھ اور مسلمانو ں عزت پر وار کرنے سے نہیں چوکتے۔

پھر یہی واقعات دنیا بھر میں خوب اچھالے جاتے ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے ہزیمت و شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ 
جبکہ ہمارے ہاں ایک مرکزی ادارہ موجود ہے جو تمام مذہبی تعلیمی اداروں کو منظور شدہ اور رائج طریقوں پر ہی چلانے کا پابند ہے تو ان گلی محلے کے مدرسوں کو بھی اس ہی کے زیر نگرانی اور پابند ہونا چاہے ساتھ ساتھ ان کی کڑی نگرانی ہونا چاہئے۔

، اور کسی بھی غیر اخلاقی فعل میں ملوث ہونے کی صورت میں جرم کا مرتکب اہلکار، متعلقہ ادارہ، اس کے ذمہ داران اور ادرے کو فوری طورپر قانون کے شکنجے میں لینا چاہئے۔ ایسے اداروں کی رجسٹریشن بغیر کسی رو رعایت کینسل کرکے انہیں کام کرنے سے فوراً روک دینا چاہئے۔ ان غیر رجسٹرڈ مدرسوں کو یوں بھی کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ان سے کوئی باز پرس کرنے والا ہے ہی نہیں وہ تو بالکل مطلق العنان ہیں ، ساتھ ساتھ با رسوخ بھی ۔

موقع بے موقع اسلامی کارڈ کا استعمال کرکے بھولی بھالی عوام کی املاک اور جزبات دونوں کو مجروح کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ 
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس امر کا پہلے ہی اعادہ کیا تھا کہ وہ تمام مدرسوں کی ترویج و ترتیب جدید خطوط پر اسطوار کریں گے۔ مدارس کے امور کا ایک مرکزی ادارہ مدارس کے تعلیمی نظام اور تدریسی نصاب کو جدید خطوط پر منظم کریگا اور تمام مدارس کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریگا۔

جس میں مدارس اپنے تمام امور کیلئے زیادہ جوابدہ ہونگے، اس میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کڑی نگا رکھی جائے گی۔ مگر یہ تمام امور ہنوز تشنہ طلب ہیں، اور عوام اس ضمن میں حکومت کے عملی اقدامات کی منتظر ہیں۔ حکومت وقت اس حوالے سے فوری اقدامات کرکے ملک و قوم کا بھلا کرسکتی ہے اور اپنی عاقبت بھی سنوار سکتی ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :