اب ہمیں ایک قوم (پاکستانی) بن ہی جانا چاہئے

اتوار 19 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ایک بار محمود غزنوی نے اپنے دربار عام میں اعلان کیا کہ جو مجھے جناب خضر کی زیارت کرائے گا میں اسے منہ مانگا انعام دونگا، دربار میں لمبی خاموشی کے بعد بظاہر ایک مفلوک الحال دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ وہ ایسا کرسکتا ہے مگر اس کام کے لئے اسے چلّا کاٹنا پڑے گا، اس دوران بادشاہ کو اسکا اور اسکے گھر والوں کا خرچ برداشت کرنا ہوگا۔

بادشاہ نے حامی بھر لی اور وہ دیہاتی معاوضہ لے کر چلتا بنا ، چالیس دن بعد پھر دربار سجا اور وہ دیہاتی بھی موجود تھا ، بادشاہ نے کہا، چلو اب دیدار کراؤ، دیہاتی بولا حضور چلّا تو الٹا ہوگیا چالیس دن اور کاٹنا ہوگا، بادشاہ مان گیا، دیہاتی چالیس دن کا مذید سامان لیکر یہ جا وہ جا، چالیس دن بعد ایک بار پھر دربار عام تھا ، لوگوں کا ہجوم تھا کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

دیہاتی بھی موجود تھا ، بادشاہ کے استفسار پر اس نے کہا کہ جناب میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا میرے پاس ایسی کو صلاحیت نہیں کہ میں آپ کو دیدار کراسکوں، بادشاہ کو بہت شدید غصہ آیا اس نے اپنے دائیں جانب بیٹھے وزیر سے پوچھا اس کی کیا سزا ہونا چاہئے، وزیر نے کہا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے چیل کوؤں کو کھلا دینا چاہئے۔ یکا یک عوام میں بیٹھے ایک نہایت نورانی شکل بزرگ تائید میں گویا ہوئے کہ یہ وزیر بالکل درست کہتا ہے۔

بادشاہ نے بائیں جانب بیٹھے مشیر خاص سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے تو وہ یوں گویا ہوئے کہ، اس کو تو بہت ہی کڑی سزا دی جانی چاہئے، یعنی اسے شاہی کتوں کے سامنے ڈال دینا چاہئے، وہ اسے چیر پھاڑ کر کھا جائیں گے۔ تو پھر وہی نورانی شکل بزرگ جھٹ بول پڑے کہ یہ مشیر بھی صحیح کہتا ہے، اب بادشاہ نے ایاز سے کہا کہ ایاز تم بتاؤ کہ اس کو کیا سزا دینا چاہئے؟ ایاز نے کہا کہ عالم پناہ یہ غریب آدمی ہے اسے معاف کر دینا چاہئے۔

کیونکہ اس کے جھوٹ سے آپ کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا ہے مگر اس کے بچوں نے آپ کے توصل سے کچھ دن تک پیٹ بھر کھانا کھا لیا جو ایک اچھی بات ہے، تو پھر وہی بزرگ بول پڑے کہ ایاز بالکل درست کہتا ہے، اب بادشاہ نے اپنا رخ ان کی طرف کیا اور کہا کہ آپ ہر ایک کی رائے میں ہاں میں ہاں ملائے جا رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے، تو بزرگ نے فرمایا کہ جناب آپ کے وزیر صاحب دراصل خاندانی قصائی ہیں لہذا وہ تو گلا کاٹنے اور ٹکڑے کرنے کی ہی بات کریں گے تو اپنے حساب سے ٹھیک ہوئے، اور آپ کے مشیرخاص کے بزرگ بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتے تھے لہذا یہ کتوں کے سامنے ڈالنے کی ہی بات کریں گے۔

قصہ اور بہت طویل ہے مگر ہمارا مقصود یہیں تک سنانا تھا۔ کہ جس کا جیسا خاندانی پس منظر ہوتا ہے وہ ارادی یا غیر ارادی طور پر ویسے ہی مشورے دیتا ہے جیسا اس کے خون میں شامل ہوتا ہے۔
 ہمارے ملک پاکستان کا بھی یہی حال ہے شروع سے آج تک یا حکمران نااہل رہے یا ان کی کابینہ کے لوگ عاقبت نااندیش نکلے۔ معاملات ہمارے حکمرانوں کے اپنی ذات سے آگے کبھی بڑھ ہی نہیں سکے، جس کو دیکھیں اپنی جیبیں بھرنے اور اپنی جائیدادیں بنانے میں مصروف نظر آتا ہے ۔

شاید 1962کی بات ہے غلام محمد بیراج کی تعمیر کے وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ اس کے اردگرد کی زرعی اراضی وہاں کے مقامی غریب کسانوں میں تقسیم کی جائے گی ، مگر بیراج کے افتتاح کے وقت وہ ساری قیمتی اراضی امراء و روساء کے درمیان تقسیم ہو گئی اور غریبوں کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا، ہماری بیوروکریسی حددرجہ کرپٹ اور عوام دشمن ہے وہ اپنے مفاد کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان مستقل حوادث کی زد میں ہے ۔ یہ محض اللہ کا احسان ہے کہ قائم و دائم ہے بلکہ بعض پڑوسیوں کی تو نیندیں اسی وجہ سے اڑی ہوئی ہیں کہ ہم اس ملک کے خلاف اتنی سازشیں کرتے ہیں مگر یہ ملک نہ صرف قائم ہے بلکہ ان سے بہتر بھی ہے۔ ہم اگر زرا پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پہ در پہ حوادث باآسانی ہی نظر آئیں گے۔

لیاقت علی خاں کا قتل، بنگلہ دیش کا وجود میں آنا، اسٹیل ملز کی تباہ حالی ، PIAکی دگرگوں حالت زار، بڑی بڑی صنعتوں کی زبوں حالی یا سرے سے ختم ہوجانا ، ایکسپورٹ کی تباہی، شپنگ کا ڈوبتا ہوتا ہوا نظام۔ یہ محض چند مثالیں ہیں آگہی کیلئے، ہم جتنا تفصیل میں جاتے جائیں گے مثالیں ملتی جائیں گی حقیقت آشکار ہوتی جائے گی، اب اگر دوسری جانب نگاہ ڈالیں تو انفرادی طورپر سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور ان کے حواریوں کی ترقی ایسی ہے کہ آپ انگشت بہ دنداں ہی رہ جائیں گے۔

اس دوران جہاں ملک تنزلی کا شکار رہا انفرادی لوگوں نے بے مثال ترقیاں کیں ، دنیا بھر میں جائیدادیں بنائیں ، غیر ملکی بینکوں بلکہ خاص کر سوئیس بینکس میں خفیہ اکاؤنٹس میں کروڑوں ڈالرز رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے ؟ یہ دل کا حب الوطنی کے جذبے سے عاری ہونا ہے، یہ صرف اپنی ذات اپنے خاندان کو ملک پر ترجیح دینا ہے۔ عوام کو آج بھی مختلف ٹولوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

عام آدمی اب تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، گاؤں میں رہنے والے اس سے بھی بری حالت کا شکار ہیں۔ عوام کی حالت زار کی وجہ ملک میں عملی طور پر عوامی سطح پر کوئی فلاحی اقدامات کا نا ہونا ہے، پیپرز میں بہت کچھ ہوتا ہے ، میٹنگز میں بڑے بڑے منصوبے پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر جانے والی حکومت بڑے بڑے دعوے بھی کرتی ہے، امر استعجاب یہ ہے کہ نہایت ڈھٹائی سے ببانگ دہل میڈیا پر عوامی فلاح و بہبود کے جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں ۔

یہ سب ہمارے سسٹم کی خرابی کی وجہ ہے، یہ جانتے ہیں کہ ہم اثر رسوخ کے مالک ہیں اگر پھنس بھی گئے تو جلد ہی چھوٹ بھی جائیں گے۔ لہذا جتنی کرپشن کر سکتے ہیں کرتے جاتے ہیں اور اگر کسی معاملے میں پھنس جائیں تو ملک سے فرار ہونے کا آپشن ہر وقت موجود رہتا ہی ہے۔
اب اگر ایک نظر ہم موجودہ حالات پر ہی ڈالیں تو باآسانی جان لیں گے کہ کیا حکومت کیا اپوزیشن سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں ، حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو برا اور ہر پریشانی کا سبب گردان رہے ہیں۔

کیا ہم اس مشکل ترین وقت میں بھی ایک قوم (پاکستانی) نہیں بن سکتے، تو جواب ہے کہ نہیں بن سکتے ، وجہ صرف یہ ہے کہ ملک سے زیادہ اپنی ذات، اپنی پارٹی، اپنے احباب اہم ہیں اور ملک کسی ترجیحی فہرست کا حصہ ہی نہیں۔ پوری دنیا ایک پلیٹ فارم پر ایک ایجنڈے پر متفق اور موجودہ وباء سے پر سرپیکار ہے، مگر ہم ابھی تک ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور الزام تراشی میں ہی مشغول ہیں، اگر یہی وسائل اور قوت عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی طور استعمال ہو جائے تو بہت سے مسائل کا باآسانی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی کیوں نہیں ہو پا رہی ، صرف اس لئے کہ دونوں کی سیاسی وابستگی الگ الگ جماعتوں سے ہے، جس طرح کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ نقصان مینڈکوں کا ہی ہوتا ہے، تو ستر سال سے بری طرح روندھی گئی عوام ان مینڈکوں سے بھی بری حالت میں پہنچ گئے ہیں ، یہ ایک بہت ہی مشکل وقت ہے ارباب اختیار کو اپنی تمام وابستگیوں سے بالا تر ہوکر صرف ملک و ملت کیلئے سوچنا ہوگا، ملک و ملت کو اپنی انا اپنی ذات پر ترجیح دینا ہوگی، سب کو مل کر اپنا اپنا حصہ ملانا ہوگا۔

اس وقت اگر کوئی ملک کی خاطر گلا شکوہ بھلا کر ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے تو یہ بھی بڑی نیکی میں شمار ہوگا اور اگر اس کا فائدہ عوام کو پہنچا تو اس کا ثواب انہیں بھی ملتا رہے گا۔ ہر ٹیم میں اچھے برے کھلاڑی ہوتے ہیں، مگر کپتان کا کام ہوتا ہے کہ ان کو کیسے استعمال کرنا ہے یا آرام کرانا ہے، ہماری تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جس سے اختلافات کی سیاست کے بجائے عوامی سیاست کو فروغ ملے اور اس انتہائی مشکل دور میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ عملی اقدامات ہوسکیں۔

ہر جماعت کو اپنا ایک اندرونی ضابطہء اخلاق بنانا چاہئے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف تادیبی کاروائی کرنا چاہئے۔ سب کا ایک مشرکہ ایجنڈا ہونا چاہئے، ملک و ملت کی فلاح و بہبود کا ایجنڈا۔ امید یہی ہے کہ اگر ہم سب ایک پیج پر آجائیں تو پھر کوئی مشکل مشکل نہیں رہ جائے گی، نیت صاف ہوگی تو آسمانی مدد بھی آئے گی اور منزل آسان بھی ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :