کیا ہم کسی بھی بے احتیاطی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

جمعہ 22 مئی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

جو لوگ یا اقوام احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں وہ ہمیشہ ا س کا نتیجہ بھگتے ہیں، محض مفروضوں کی بنیاد پر کئے گئے فیصلے بہت کم سودمند ثابت ہوتے۔ اور اس کے مضمرات ڑی تعداد میں لوگوں کو برداشت کرنا پڑ جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ گذشتہ دنوں ایران میں ہوا جہاں کرونا کی وجہ سے کئے گئے لاک ڈاؤں میں نرمی کر دی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے بے فکری سے معمولات زندگی شروع کردیئے تھے نتیجة ً ایران کو کرونا کی وباء کا شدت سے لوٹ آنے کا سامنا ہے۔


طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے سے پیشتر کی گئی انتباہ پر غور نہیں کیا جو ان کو وباء کے بڑھ جانے کے خدشے کی خاطر کئے گئے تھے۔ لہذا اب آٹھ کے آٹھ صوبوں میں کرونا کے کیسز بہت تیزی سے پھیل اور بڑھ گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایران نے محض مفروضوں کی بنیاد پر گذشتہ مہینے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کردیا تھا، اور لوگ جیسے بس اعلان کے منتظر بیٹھے تھے۔

سارے کے سارے گھروں سے نکل پڑے اور لوگوں نے گلیوں ، بازاروں، بسوں اور اسٹیشنز کو ہجوم سے بھر دیا۔ نوجوان پزا اور ہیم برگر کی دکانوں میں جا کر بھر گئے، ہائی ویز ٹریفک سے جام ہو گئے اور لوگوں نے اصفہا ن اور تہران کے بازاروں کا رخ کیا، اور وہاں وہ رش پڑا کے کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ ساتھ ساتھ عبادت گزاروں نے بھی مساجد کا رخ کیا تاکہ رمضان کی ساعتوں کا فائدہ اٹھا سکیں۔

مگر صرف تین ہی ہفتوں میں ملک کرونا وائرس کی نئی لہر کا شکار ہوگیا، اور اب وباء کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ اور سنگین ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق آٹھوں صوبوں میں کرونا کے کیسز بہت تیزی اور بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا گورنمنٹ کی اپریل میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے ہوا۔
ایران جو مشرق وسطی میں اس وبا ء کا منبع و مرکز تھا اس نے بغیر طبی ماہرین کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیر کو اختیار کئے لاک ڈاؤن میں زبردست نرمی کا اعلان کردیا، نتیجةً وباء کو دوبارہ پھیلنے کا موقع مل گیا۔

ایران کی مرکزی حکومت نے ہفتوں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس وباء پر قابو پاچکے ہیں مگر جب دوبارہ کھولا تو نتائج اچھے نہ نکلے، انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ہم اس جنگ میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے، کیونکہ ایک طرف تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت پر بدترین اثرات مرتب ہو رہے ہیں دوسرا امریکہ کی پاپندیوں نے بھی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

 
 ایسے میں پاکستان میں لاک ڈاؤن میں نرمی کیا جانا اور کاروبار، و ٹرانسپورٹ کا کھولا جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی لاک ڈاؤن میں کافی نرمی دی ہوئی تھی اور اب رہی سہی پاندیوں کا اٹھا لیا جانا ہو سکتا ہے معیشت کے لئے کچھ سازگار ہو مگر انسانی جانوں کے لئے زیادہ سودمند نہ ہو، ملک میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے یہ نرمی عوام کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔

کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لگتا یہ ہے کہ کرونا پاکستان میں وباء کی شکل میں موجود نہیں تو پھر اس پر اسقدر خرچہ کیوں کیا جا رہا ہے، کورٹ نے کہا کہ اگر طبی ماہرین کو کوئی اعتراض نہ ہو تو شاپنگ مال بھی کھول دیئے جایئں، اور ہفتہ اتوار کو بھی یہ کھلے رہیں گے۔ اب تک پاکستان میں کرونا کے 42,125 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں 903 کی اموات ہوچکی ہیں۔

گوکہ یہ اعداد و شمار مغربی ممالک کی بہ نسبت بہت کم ہیں مگر اس مہینے کیسز بہت تیزی سے بڑھے ہیں۔ وزیراعظم سمیت تمام حکام بالا کا یہ ماننا ہے کہ کیسز میں اضافہ ضرور ہوا ہے مگر اب بھی اندازے سے کم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کیونکہ لاک ڈاؤن کا معیشت بر بہت برا اثر پڑ رہا ہے، لہذا ہمیں مجبوراً لاک ڈاؤن میں نرمی کرنا پڑ رہی ہے۔ جو ہم ملک بھر میں مرحلہ وار مذید نرم کردیں گے۔

ڈاکٹرز نے اس حکومتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا یا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس نرمی کے نتیجے میں کرونا ملک میں بہت تیزی سے پھیلے گا اور نظام صحت کو اس سے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں کیسز بڑھیں گے اور سنگین کیسز میں اضافہ کی وجہ سے ہسپتالوں پر پریشر آجائے گا۔ جہاں سہولیات بالخصوص وینٹیلیٹرز کا فقدان ہے۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کا عوام میں زبردست اثر دیکھنے میں آیا، بازار اور مال لوگوں سے کچھا کچھ بھر گئے ہیں اور لوگ SOPs اور Social Distancingکا بالکل بھی خیال نہیں رکھ رہے ہیں، کورٹ آرڈر آنے کے بعد ریلوے نے بھی محدود تعداد میں ٹرین چلانے کی نوید سنا دی ہے۔ ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کے چلنے کے بھی امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ کیونکہ عید الفطر کا موقع ہے اور رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے، امید یہ کی جارہی ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عید کی خریداری نہیں کرسکے ہوں گے، لہذا اب بازاروں اور شاپنگ مالز میں شدید ترین رش ہوگا۔

بلکہ کچھ بازاروں کی تو تصاویر آنا شروع ہو گئی ہیں جہاں بدترین رش ہے لوگ حفظان صحت کے اصولوں سے بے پرواہ جو جی میں آرہا ہے کر رہے ہیں۔
اگر ہم اس وباء کے تناظر میں ان ملکوں کے موجودہ حالات پر نظر ڈالیں جو دنیا میں ترقی یافتہ اور امیر ملک گنے جاتے ہیں تو حیرت ہوگی کہ وہ اس وباء سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور کوئی سنبھلنے کی صورت نظر نہیں آرہی، مثال امریکہ، برطانیہ اور اٹلی کی لی جاسکتی ہے، وہ جن حالات سے دوچار ہیں ، اللہ کے کرم سے ہم اب تک اس سے بچے ہوئے ہیں ، لیکن اگر آ بیل مجھے مار کی راہ اپنائی گئی تو پھر کچھ بھی ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

کیونکہ ہماری عوام تمام قاعدے قانون سے نابلد ہے وہ بس وہ کرتے ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے۔
کرونا ایک ایسی وباء ہے جس کے پھیلنے کیلئے ایک انسان ہی کافی سارے لوگوں میں اس وائرس کے پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ شروع کے چھ سے آٹھ دن تک کچھ پتہ نہیں چلتا تو ہر نیا متاثرہ شخص چلتی پھرتی وائرس کی فیکٹری ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بے شمار لوگ اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں پتہ جب چلتا ہے جب ان پر علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، ہمارے وسائل بہت محدود ہیں، سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، اور مسائل کا انبوہ کثیر ہے ۔

ایسے میں خدا نہ کرے اگر اس وباء نے آفت کی شکل اختیار کرلی تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہم سب کو اپنی خاطر اپنے اہل خانہ ، خاندان ، دوست احباب سب کی خاطر بہت احتیاط سے کام لینا ہے اور نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے گریز کرنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :