
ہماری چھت کا آرکیٹیکٹ
جمعہ 30 اپریل 2021

زاہد یعقوب عامر
(جاری ہے)
جو لوگ کھیتوں میں تربوز, خربوزے, کھیرے, ٹماٹر کی فصل اگاتے ہیں تو وہ وہاں کھیت کے درمیاں سرکنڈوں کی کٹیا بنا لیتے ہیں.
اسی طرح کچے مکانوں میں بارش کے معانی کچھ اور ہوتے ہیں. ٹپکتی چھتوں تلے سلور, پیتل یا لوہے پلاسٹک کے برتن رکھے جاتے ہیں. ٹپ ٹپ کی آواز ان ہی چھتوں کے مکینوں کے کی سماعتوں کے لئے تخلیق ہوئ تھی. یہ ان کانوں کی بارش میں مانوس آواز ہے. ساون کی جھڑی اگر دو چار دن بڑھ جائے تو یہ کچی چھتیں پانی کا مقابلہ نہیں کر پاتی ہیں. سہمی ہوئی مائیں چھت کی طرف دیکھتی ہیں. معصوم بچوں کو گود میں لٹا کر ساری رات جاگتی ہیں. پرنالوں اور نالیوں سے تنکے پتے نکالے جاتے ہیں تاکہ دیوار کے ساتھ پانی نہ کھڑا ہو.
کچی چھت کے بعد ایک چھت آہنی گارڈر اور لکڑی سے بنی ہوتی ہے. لکڑی اور لوہے کی اس چھت پر گرتی بارش نسبتاً مکینوں کے لئے کم پریشانی کا باعث ہوتی ہے. چھت سے پانی پھسل جاتا ہے. کچی اور پکی چھتوں کے درمیاں ایک چھت ٹی آئرن کی بھی ہوتی ہے. یہ کچھ مضبوط چھت ہے.
اس کے بعد سیمنٹ سے بنی, لینٹر والی چھت ہے. مکین بارش انجوائے کرتے ہیں. پانی ٹھہرتا ہی نہیں. نکاسی کا بہترین نظام. کھڑکیوں سے گرتی بوندوں کانظارہ. گرم کافی کا مگ تھامے بارش کی نغمگی کو سننا مسحورکن. سماعتیں روح تک سکون محسوس کریں. ہوا کا جھونکا جب چہرہ بھگوئے تو سرشاری کا احساس روح کو گرمائے. یہ بارش نعمت لگے. باراں رحمت محسوس ہو.
ایک چھت وہ بھی ہے جو نیلی ہے. جو دھوئیں سے کالی پیلی ہو چکی ہے. جس کے مکین بارش, دھوپ, آندھی ہوا میں اٹھ کر کھڑکی نہیں بند کرسکتے. جو ونڈو بلائینڈ نہیں آن کر سکتے. جو چھت ٹپکنے پر متفکر نہیں خوف زدہ ہوتے ہیں. یہ بھی سوچتے ہیں کہ بارش میں کس جگہ جائیں گے. پارک کے شیڈز کے نیچے پناہ لیں گے یا پل ان کو جگہ دے گا. یقین مانیں یہ لوگ بھی ہیں. آپ آزادی چوک کے اقبال پارک میں مینار پاکستان کے سائے میں گھاس پر سوئے سینکڑوں لوگوں کو دیکھیں. آپ فٹ پاتھ پر لیٹے ان گنت پردیسی مزدوروں کو دیکھیں. اسلام آباد کی سڑکوں, چوراہوں, بری امام, میلوڈی, کراچی کمپنی, پشاور موڑ , ستارہ مارکیٹ اور متعدد جگہوں پر دیکھیں تو سینکڑوں بے گھر لوگ سردیوں تک میں ٹھنڈی زمین پر لیٹے نظر آئیں گے. کراچی کے صدر, کالا پل, کینٹ اسٹیشن, شاہراہ فیصل اور بہت سی جگہوں پر میں نے بہت سے جسموں کو زمین سے لپٹے دیکھا ہے.
اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے قیام کے دوران میرے دوست شبیر حسین لدھڑ اور چند احباب نے مل کر ایسے بے گھر لوگوں کے لئے بستروں کا اہتمام کیا. رات کے اندھیرے میں ان ٹھٹھرتے بدنوں پر نئے کمبل اور رضائیاں اوڑھ آتے. جب تک اس کی آنکھ کھلتی تو یہ لوگ جا چکے ہوتے تھے. یہ دکھاوے یا تعریف و توصیف کے لئے کبھی وہاں نہ رکتے تھے. مجھے یقین ہے کہ وہ بدن جب حدت محسوس کرتے ہوں گے تو جاگ جاتے ہوں گے. کچھ جسموں, انسانوں, روحوں کے لئے سکون, طمانیت, حدت, لطافت عجب سی چیز ہوتی ہے. وہ سکون کے عادی ہی نہیں ہوتے. کرب و دکھ انہیں اپنا محسوس ہوتا ہے. حالانکہ سب اسی مٹی کے بنے انسان ہیں اور مٹی ہی ان کی اصل منزل ہے. ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کے لئے آسانی پیدا کریں. ہم اگر سرکنڈوں, شہتیروں,ٹی آئرن, یا لینٹر کی چھت کے مکین ہیں تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے. اس چھت کا میٹریل بدلتے دیر نہیں لگتی. اس کا آرکیٹیکٹ بہت طاقت و جلال والا ہے.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زاہد یعقوب عامر کے کالمز
-
رشیدہ منہاس سے راشد منہاس تک
پیر 13 دسمبر 2021
-
فلائیٹ لیفٹیننٹ عمر شہزاد شہید (تمغہ بسالت)
ہفتہ 25 ستمبر 2021
-
درس شہادت کے فضائی وارث
منگل 7 ستمبر 2021
-
کھیل جیت اورتشدد
پیر 23 اگست 2021
-
راشدمنہاس شہیدنشان حیدرکا 50 واں یوم شہادت
ہفتہ 21 اگست 2021
-
پانی اور رشتےایک جیسےہیں
منگل 10 اگست 2021
-
یہ تو ہیجڑےہیں
جمعہ 25 جون 2021
-
خالی گھونسلےکی بیماری
بدھ 16 جون 2021
زاہد یعقوب عامر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.