پاک چین دوستی وقت کی ہر آز مائش پر پورا اتری ہے، پاکستان کامیابی اور ترقی کی طرف اڑان بھر چکا ہے، سی پیک سے پورا پاکستان بدل رہا ہے، توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر پورے ملک میںکام جاری ہے، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ سمیت پسماندہ علاقوں کو سی پیک سے خاص طور پر فائدہ ہوگا، پاکستان میں ہر چیز کا ستیاناس اور بیڑہ غرق نہیں، بہت کچھ ٹھیک بھی ہے، سی پیک عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بن گیا ہے، دنیا بھر کے ممالک سی پیک میں اپنے لئے مواقع تلاش کر رہے ہیں، گوادر ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسی بندرگاہوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے قوم کو غربت اور جہالت سے نکالنے کیلئے ایک نہ ہوئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی

وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کا ’’سی پیک کے پانچ سال-کامیابیوں اور مواقع کی داستان‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب

بدھ 25 اپریل 2018 16:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اپریل2018ء) وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاک چین دوستی وقت کی ہر آز مائش پر پورا اتری ہے، پاکستان کامیابی اور ترقی کی طرف اڑان بھر چکا ہے، سی پیک سے پورا پاکستان بدل رہا ہے، توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر پورے ملک میںکام جاری ہے، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ سمیت پسماندہ علاقوں کو سی پیک سے خاص طور پر فائدہ ہوگا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی باتیں کرنے والے نام نہاد دانشور ہیں جن کا کام ہی ہر چیز میں کوئی چکر تلاش کرنا ہے، چین کی تاریخ کا مطالعہ کریں، ہمارے اندر بھی اتنا ہی پاکستان دھڑکتا ہے جتنا کسی اور کے دل میں، لوگوں کی تذلیل کرنے کو ہم نے کھیل اور مذاق بنا لیا ہے، بہت ہوگیا اب اس ملک کو چلنے دیا جائے، کسی کو پاکستان کی ترقی سے کھیلنے نہیں دیں گے، ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہئے، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے قوم کو غربت اور جہالت سے نکالنے کیلئے ایک نہ ہوئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔

(جاری ہے)

بدھ کو مقامی ہوٹل میں ’’سی پیک کے پانچ سال-کامیابیوں اور مواقع کی داستان‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ سی پیک ہماری ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہے، سی پیک عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بن گیا ہے اور پاکستان نے سی پیک کی وجہ سے عالمی توجہ حاصل کر لی ہے، آج یورپی یونین، وسط ایشیائی ممالک، مشرق وسطی سمیت دنیا بھر کے ممالک سی پیک میں اپنے لئے مواقع تلاش کر رہے ہیں اور اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، کینیڈا، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا سمیت ہر جگہ سی پیک کے حوالے سے ریسرچ ہو رہی ہے اور دنیا اس منصوبہ میں گہری دلچسپی لے رہی ہے، یہ منصوبہ پاک چین دوستی کی علامت بن چکا ہے، ہمارے لئے بھی اس میں بے تحاشہ مواقع ہیں اور ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ اب کامیابی کے پیمانے بدل گئے ہیں اور عالمی سطح پر اقتصادی ترقی کے میدان میں ہی ملکوں اور قوموں نے آگے بڑھنا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم یہاں اور طرح کے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، جس طرح ماضی میں (ق) لیگ، پیٹریاٹ اور اسلامک فرنٹ بنائے گئے اسی طرح آج بھی بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں (ق) لیگ اور پیٹریاٹ ایک نئی شکل میں بنائے جا رہے ہیں، ایم ایم اے کا خیال بھی پرانا ہو چکا ہے، یہ سکّے اب نہیں چلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے بہت بڑے بڑے منصوبے ہیں لیکن سی پیک کی سپرٹ محض یہ منصوبے نہیں ہیں کیونکہ ترقی اور خوشحالی صرف انفراسٹرکچر کے منصوبوں سے نہیں آتی بلکہ اس کیلئے ایک مناسب ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس میں یہ پھلتی پھولتی ہے، اس مناسب ماحول کی فراہمی کے بغیر جیسی مرضی پالیسیاں لے آئیں اور کتنے ہی بڑے ماہرین اور ٹیکنوکریٹ خواہ کچھ بھی کر لیں، ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان کی فی کس آمدنی 300 ڈالر جبکہ چین کی صرف 200 ڈالر تھی لیکن آج چین میں فی کس آمدنی 8000 ڈالر اور پاکستان میں صرف 1600 ڈالر ہے، چین کی قیادت نے اپنے عوام اور قوم کو ایک وژن دیا اور سیاست کے معنی بدل ڈالے کیونکہ ایسی آئیڈیالوجی کا کوئی فائدہ نہیں جو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن نہ کر سکے، چینی قیادت نے اپنی قوم کو جس راستے پر ڈالا اس سے چینی قوم دنیا میں سربلند ہوئی، امن، استحکام، ترقی اور اصلاحات چین کی ترقی کا بنیادی نکتہ ہے، جب تک اسے مناسب زمین نہ ملے کوئی بہترین بیج بھی پھل پھول نہیں سکتا ، اگر مناسب زمین مل جائے تو کوئی عام سے بیج بھی تناور درخت بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کی عادات ترک کرنا ہوں گی جو ہم کرتے رہے ہیں اگر وہی کرتے رہیں گے تو نتائج بھی ماضی جیسے نکلیں گے، ہمیں اقتصادی قوم بننا ہوگا، استحکام اور تسلسل برقرار رہے گا تو ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 60 اور 90 کی دہائی میں ترقی کے دو مواقع گنوا دیئے، 60 کی دہائی میں جنگ کے بعد ہم اقتصادی ترقی کے راستے سے بھٹک گئے اور 1991ء میں نواز شریف کی حکومت کے دور میں پاکستان کو ترقی کا ایک اور موقع ملا لیکن ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کر دیا گیا اور کسی حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی۔

احسن اقبال نے کہا کہ من موہن سنگھ نے سرتاج عزیز سے پاکستان میں ہونے والی اصلاحات کی کاپی مانگی اور ہماری اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرکے بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ہم سے آگے نکل گئے، افغانستان میں ایک کے بعد دوسرا صدر اپنی مدت مکمل کر رہا ہے لیکن پاکستان میں لیاقت علی خان سے لے کر آج تک کسی وزیراعظم کو اپنی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی، ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے، کیا پاکستان کے سیاستدان بھارت اور بنگلہ دیش کے سیاستدانوں سے بھی زیادہ کرپٹ اور کریمنلز ہیں، اگر وہاں جمہوریت چل سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں، وہ اقتصادی ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے فیصلہ کن لمحہ ہے اور ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے استحکام اور تسلسل کو برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو مواقع گنوانے کے بعد اب ہمارے سامنے یہ تیسرا موقع موجود ہے جس سے ہمیں استفادہ کرنے کا تہیہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء کے پاکستان کا آج کے پاکستان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، 2013ء میں نیوز ویک پاکستان کو دنیا کے خطرناک ملکوں میں شامل کر رہا تھا، آج کسی مغربی میگزین کی جر ت نہیں کہ پاکستان کے بارے میں ایسی بات لکھے، پوری دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، اس ملک میں 18، 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی اور صنعتیں بند تھیں، مشتعل ہجوم بجلی کے دفاتر جلا رہے تھے اور پاکستان میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے خانہ جنگی کی پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں، گھروں میں روشنی کیلئے موم بتیاں جلائی جاتی تھیں اور دنیا کہہ رہی تھی کہ پاکستان پتھر کے دور میں چلا گیا ہے، آج کس کی جر ت ہے کہ پاکستان کے بارے میں ایسی بات کرے، آج ملک میں 18 سے 20 گھنٹے بجلی آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں بھارت کی سست شرح نمو کو ہندو گروتھ کہا جاتا تھا اور یہ سلو گروتھ کی ایک علامت بن گئی تھی جبکہ 2010ء میں اردو گروتھ ریٹ پاکستان کی سلو گروتھ کی علامت تھی، آج پاکستان میں 5.8 فیصد کی شرح نمو 13 سالوں میں سب سے زیادہ ہے، پاکستان بدل رہا ہے، ہمیں اپنی سوچ بھی بدلنی چاہئے اور ہر وقت منفی پہلو دیکھنے کی بجائے مثبت پہلوؤں پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی محض بٹن دبا کر حاصل نہیں کی جا سکتی، یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر چیز کا ستیاناس اور بیڑہ غرق نہیں ہے، پاکستان میں بہت کچھ ٹھیک بھی ہے، سی پیک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے، 2013ء میں جب پاکستان میں کوئی 10 ڈالر لگانے کو بھی تیار نہیں تھا اور سلامتی کی صورتحال ابتر تھی تو پاکستان کا دوست ملک چین ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، 5 جولائی 2013ء کو وزیراعظم نواز شریف نے سی پیک کیلئے ایم او یو پر دستخط کئے، مضبوط سیاسی سپورٹ کی وجہ سے ایک سال میں چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے جس کے بعد پاکستان میں دھرنے شروع ہو گئے اور بحران کھڑے کئے گئے، پوری دنیا کا میڈیا پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کی سٹوریاں شائع کرنے لگا، چین نے پاکستان کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کی تو دنیا نے بھی پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے محفوظ ملک سمجھنا شروع کیا جس کے بعد پاکستان میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبہ میں تاریخی سرمایہ کاری کا آغاز ہوا، 20 ماہ کے عرصہ میں ساہیوال اور پورٹ قاسم میں بجلی کے پلانٹ لگے، مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ آئندہ ماہ سے کام شروع کر دے گا، 70 سالوں میں تھر میں کوئلے کی شکل میں موجود سونے کے ذخیرے کو ہم نہیں نکال سکے تھے، سی پیک سے یہ ممکن ہوا، ملک میں سماجی و اقتصادی ترقی کا انقلاب آ رہا ہے، اس منصوبہ میں خواتین زمین کے اندر گہرائی میں جا کر ڈمپر چلا رہی ہیں، گوادر کی بندرگاہ 70 سال میں ڈویلپ نہیں ہو سکی تھی، 1998ء میں ہماری حکومت نے اس پر کام شروع کیا تھا کہ اسی دوران ہماری حکومت ختم کر دی گئی، بعد میں پانچ سال کیلئے یہ سنگاپور کی کمپنی کو دی گئی جو کچھ نہ کر سکی، آج چین کے تعاون سے گوادر سمارٹ پورٹ سٹی آف ایشیا بننے جا رہا ہے جو ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسی بندرگاہوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا اور وسط ایشیا، افریقہ اور یورپی منڈیوں تک رسائی فراہم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک نے پاکستان کے پسماندہ علاقوں کیلئے ترقی کے راستے کھول دیئے ہیں، گوادر- کوئٹہ شاہراہ کی تعمیر سے دو دنوں کا سفر 8 گھنٹے میں طے ہو رہا ہے، تربت، پنجگور، قلات، بسیمہ سمیت بلوچستان میں جہاں جائیں ایک اقتصادی انقلاب آ گیا ہے لیکن سقراط اور بقراط یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں، مسلم لیگ (ن) پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ صرف سڑکیں بنانا جانتی ہے، ان سقراطوں اور بقراطوں کو معلوم نہیں ہے کہ تعلیم، صحت سمیت ساری سہولیات سڑک کے ذریعے چل کر آتی ہیں، سی پیک کے تحت بننے والی سڑکوں اور رابطوں سے کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ سمیت پورے پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو خاص طور پر فائدہ ہوگا اور ترقی وہاں دستک دے گی، فائبر آپٹک سے اسلام آباد جیسی آئی ٹی کنکٹیویٹی گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ملے گی، سی پیک سے پورا پاکستان بدل رہا ہے، ریلوے کی ترقی کیلئے 8 ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے، 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز رفتار ٹرینیں چلیں گی، سی پیک کے تحت 9 صنعتی زونز بنائے جا رہے ہیں جن میں چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی اور مقامی سطح پر روزگار کے بہت مواقع پیدا ہوں گے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ چین سے 85 ملین جابز دوسرے ملکوں میں جا رہی ہیں، ہمارے لئے یہ چیلنج ہے کہ ہم ان میں سے کتنی جابز حاصل کرتے ہیں، خودساختہ دانشور تنقید کرتے ہیں کہ چین ٹیک اوور کر لے گا، یہ وہ لوگ ہیں جو سی پیک کی کامیابی سے پریشان ہیں اور اسے خراب کرنا چاہتے ہیں، کلبھوشن کا مشن بھی سی پیک کو سبوتاژ کرنا تھا، 35 ارب ڈالر کے توانائی کے منصوبے چین کی سرمایہ کاری ہیں، انفراسٹرکچر میں 11 ارب ڈالر سافٹ لون ہے، کونسا ملک اس طرح کا سافٹ لون دیتا ہے جس طرح چائنا دے رہا ہے، 50 سالوں میں کسی نے ان شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی، پاکستان میں سرمایہ کاری پر چین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو پاکستان کو اپنی ترقی میں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر چینی جو یہاں کام کر رہا ہے، وہ ہمارا مہمان ہے، کہا جاتا ہے کہ نئی ایسٹ انڈیا کمپنی بن جائے گی، ان سقراطوں اور بقراطوں نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، چین نے کبھی کسی کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کیا جبکہ جرمنی، سپین، امریکا، برطانیہ، ہالینڈ سمیت دنیا کے ہر ملک نے دوسری جگہ جا کر قبضے کئے، چینیوں نے جو کام اپنی تین ہزار سالہ تاریخ میں نہیں کیا وہ اب کیوں کریں گے۔

انہوں نے تنقید کرنے والے نام نہاد دانشوروں کو مشورہ دیا کہ وہ تاریخ کا مطالعہ کریں اور ہر چیز میں کوئی چکر تلاش نہ کریں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان ترقی اور کامیابی کی طرف اڑان بھر چکا ہے، اس لئے ہمیں منفی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے، دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اتنی ہی کرپشن ہے جتنی پاکستان میں، ہمارا کسی بھی قوم سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ہمارے اندر بھی اتنا ہی پاکستان دھڑکتا ہے جتنا کسی اور کے دل میں، لوگوں کی تذلیل کرنا ہم نے مذاق اور کھیل بنا لیا ہے، ہم پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت ہو گیا، اس ملک کو چلنے دیں، ہم ملک کو نیچے سے اٹھا کے اوپر لے گئے ہیں، آج پاکستان میں امن ہے اور 11000 میگاواٹ توانائی کے منصوبے مکمل ہوئے ہیں، ہماری حکومت کو شاباش نہیں دے سکتے تو تازیانے تو نہ برسائے جائیں، ساری دنیا پاکستان کی ترقی کو تسلیم کر رہی ہے، کسی کو پاکستان کی ترقی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، عدلیہ اور پارلیمان سمیت ہر ادارے کا اپنا کام ہے، اگر ہر ادارہ نے اپنا کام نہ کیا تو محض سی پیک سے ترقی نہیں ہو سکتی، اگر ہمیں سی پیک کا فائدہ اٹھانا ہے تو یکجہتی سے ملک کا نظام چلانا ہے، فوج، عدلیہ، میڈیا اور پارلیمان سمیت سب ادارے اپنے حصہ کی ذمہ داریاں ادا کریں اور پاکستان کو اکیسویں صدی میں ایشیا کا ٹائیگر بنانے کیلئے کام کریں، ہمیں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے قوم کو غربت اور جہالت سے نکالنے کیلئے تعاون کرنا ہوگا ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کس طرح اس بیج کی آبیاری کی ہے، اب ہر کوئی باغیچہ کھودنے آ گیا ہے، ہم اپنے لہو سے اس باغیچے کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین دوستی اور شراکتداری ہر دور میں موجود رہی ہے، پاکستان میں کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر چین ہر دور میں پاکستان کا دوست رہا ہے۔ قبل ازیں چین کے سفیر یاہو جنگ نے اس موقع پر کہا کہ سی پیک پاکستان اور چین کے مابین تزویراتی شراکت داری، تعاون اور دوستی کی مثال ہے، 70 سال سے پاکستان اور چین کے مابین ہر شعبہ میں تعلقات موجود ہیں، اقتصادی ترقی اور انفراسٹرکچر کے شعبہ میں یہ شراکت داری مزید مستحکم ہوئی ہے، سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ چین کیلئے بھی فائدہ مند ہے اور یہ ہماری قیادتوں کے وژن کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک سے دونوں ملکوں کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھوئیں گے، یہ ترقی اور کنکٹیویٹی کا دور ہے، چین نہ صرف اپنی بلکہ ہمسایوں کی ترقی کا بھی وژن رکھتا ہے، پاکستان کی سٹریٹجکل لوکیشن انتہائی اہمیت کی حامل ہے، سی پیک کے تحت جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی میں مل کر فیصلے کئے جاتے ہیں، سی پیک میں سب کیلئے مواقع موجود ہیں۔