پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں
جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ کیئے گئے تو2025تک پاکستان بدترین قحط اور خشک سالی کا شکار ہوجائے گا‘ماہرین
میاں محمد ندیم منگل 6 نومبر 2018 11:05
(جاری ہے)
تاہم اس کانفرنس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تھی. اس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک، بہ شمول چین نے سبز مکانی گیسز کے اخراج میں کمی کے حوالے سے عالمی مطالبات مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس مسئلے پر ترقی یافتہ ممالک قائدانہ کردار ادا کریں کیوں کہ چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک اپنی شرح نمو اور صنعتی ترقی کو داﺅ پر نہیں لگا سکتے.
پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالے سے 2025ئ ایک علامتی سنگ میل ہے‘ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ی پی)، آئی ایم ایف، پاکستان کی کونسل فار ریسرچ ان واٹر اور ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی )،سب ہی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ 2025ءتک پاکستان میں پانی ختم ہو جائے گا‘ پاکستانی تحقیقی ادارے نے 1990ءمیں تنبیہ کی تھی کہ پاکستان پانی کی کمی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے. اس کے بعد 2005ءمیں اس ادارے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان پانی کی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے.یہ صورت حال وقت، مواقعے اور وسائل کے مسلسل ضیاع کا نتیجہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس سالانہ 5200 کیوبک میٹرز پانی دستیاب تھا۔ 2018ءمیں یہ شرح 1000 کیوبک میٹرزسے کم ہے اور خدشہ ہے کہ 2025ءتک یہ مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹرز تک رہ جائے گی. سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے خشک سالی اور قحط‘پانی کی قلت اور متعلقہ مسائل پر کام کرنے والے تحقیقی ادارے حصار فاﺅنڈیشن سے تعلق رکھنے والے ماہر، توفیق پاشا کے مطابق چند دہائی قبل تک پاکستان میں تیس فیٹ کی گہرائی تک پانی مل جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں پانی کے لیے بہت سے مقامات پر 800فٹ تک کھدائی کرنی پڑتی ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کے زیر زمین ذخیرے کی تشکیل میں قدرت کو بعض اوقات ایک ہزار برس درکار ہوتے ہیں‘ اگر اس پانی کو ٹیوب ویلز کے ذریعے بے دریغ نکالا جائے گا تو یقینا چند برسوں میں ختم ہو جائے گا. پنجاب میں زیر زمین پانی کی شرح 20 ملین مکعب فٹ تھی لیکن ہم نے اس کی گویا کان کنی کی ہے. واپڈا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں‘ اسلام آباد کو 176 ملین گیلن سالانہ درکار ہے، مگر اسے 84 ملین گیلن میسر ہے، کراچی کو 1100 ملین گیلن درکار ہے اور اسے سالانہ صرف 600 ملین میسر ہے. پشاور کی سالانہ ضرورت 250 ملین گیلن ہے،لیکن اسے صرف 162 ملین گیلن مل پاتا ہے‘لاہور کی سالانہ ضرورت 692 ملین گیلن ہے،لیکن اسے 484 ملین گیلن ملتا ہے‘اسی طرح کوئٹہ کی ضرورت 45 ملین گیلن ہے،لیکن اسے 28 ملین گیلن حاصل ہوتے ہیں. ایک جانب یہ صورت حال اور اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے اور دوسری جانب پاکستان ڈیمو گرافک اور ہیلتھ سروے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کے تناسب میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے،2046 تک ملک کی آبادی دگنی ہو جائے گی اور2030 تک پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے گنجان آباد ملک بن جائے گا‘اس آبادی کے لیے 12کروڑ نوکر یا ں ، 1کروڑ90لاکھ گھر اور85ہزار پرائمری اسکولزدرکار ہوں گے. اس ضمن میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.40فی صدتک پہنچ گئی ہے اوراگر یہ شرح برقراررہی تو2046 میں آبادی دگنی ہوجائے گی اور2040 تک پاکستان میں مزیدبارہ کروڑ نوکر یا ں درکار ہوں گی. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے شکار دنیا کے تین ممالک میں سے ایک ہے‘رپورٹ میں کہا گیاہے کہ رہائش کے لیے ایک کروڑ 90لاکھ گھروں کی ضرورت ہوگی اور2040 تک ملک میں 85 ہزارمزیدپرائمری سکولز بنانے پڑیں گے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں زچگی کے دوران ماﺅں اور بچوں کی اموات سب سے زیادہ پاکستان میں ہو رہی ہیں‘ہر سال بارہ ہزار مائیں زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں. پاکستان میں ہر ایک ہزارولادتوں میں62 شیرخواربچے ایک سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے‘سروے کے مطابق جنوبی ایشیامیں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش کی شرح پاکستان میں ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے 68 فی صد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں‘ان حالات میں مستقبل کا سوچ کر دل دہلنے لگتا ہے. ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شرح آبادی میں اضافے سے بھی ہماری پانی کی ضرورت اور ترسیل کے نظام پر دباﺅ بڑھا ہے‘تاہم اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو موجودہ بحران کا سبب بنیں. کسی با ضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کے پھیلاﺅ کی اجازت دی گئی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے چشم پوشی کی گئی. صنعتوں میں اضافہ ضروری تھا، مگر ماحولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے ضابطے مقرر نہیںکیے گئے، لہذا ہمارے دریا آلودہ ہو گئے اور زہریلے مواد زیر زمین پانی میں شامل ہو گئے. سیمنٹ اور چمڑے کی فیکٹریز نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘نہروں کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور نہری سلسلے میں آب پاشی کے دوران تقریبا 50 فی صدپانی ضائع ہوتا رہا‘ سیم اور تھور کی روک تھام بھی نہیں کی جا سکی. کچھ عرصہ قبل پاکستان میں پانی کے بحران اور اس کے ممکنہ تباہ کن اثرات کے موضوع پر فرانس کے ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک انٹرسٹ کے ماہر برائے جنوبی ایشیا، اولیور گئیر نے بتایاتھا کہ یہ نئی یا ناگہانی صورت حال نہیں‘ میں 25 برس قبل پاکستان میں قیام پذیر تھا، اس وقت بھی سب کو علم تھا کہ پاکستان اس تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن پاکستان میں انہیں اس حوالے سے کوئی سنجیدگی یا پریشانی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی ایسے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوئی سیاسی عزم دکھائی دیا. پانی کے بحران کے حوالے سے حکومتی اور ریاستی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی واٹر پالیسی کا اعلان اپریل 2018ءمیں ہوا‘ 2005ءمیں ورلڈ بینک کی تحقیقی رپورٹ کے بعد اس کا پہلا مسودہ تیار ہواتھا. 2010ءتک اس کی نوک پلک درست ہوتی رہی‘ 2012ءمیں اس پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہوا جو 2015ءتک بحث ،مباحثے اور نظرثانی کے مراحل سے گزرتا رہا. اس رپورٹ کے مطابق انڈس سسٹم کا 50 فی صد پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے‘ پاکستان کے موجودہ ڈیم اپنی عمر پوری کر چکے ہیں اور پاکستان میں خوراک،پانی اور توانائی کے بحران باہم مربوط ہیں‘ اس رپورٹ میں دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے لیکن ہم نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی. پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسوریسز نے خبردار کیا ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو2025 تک قحط جیسی صورت حال یا پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے. ادارے کے مطابق یہ بات درست ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر بر وقت اقدام نہ اٹھائے گئے تو دس سال بعد ملک میں پانی کی شدید قلت ہونے کا خطرہ ہے اور بات قحط سالی تک بھی جاسکتی ہے. آبی امور کے ماہرین کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے‘ ہم نے چار دہائیوں میں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنایا‘ ڈیموں اور بیراجوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے. اس کمی کی ایک وجہ جنگلات کے سکڑنے کا عمل بھی ہے‘ درختوں کے کٹنے سے مٹی کے جمع ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے. درخت نہ ہونے کی وجہ سے کیوں کہ پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا لہذا مٹی، کنکر، پتھر اور ریت آکر ڈیموں اور بیراجوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے.مزید اہم خبریں
-
مارگلہ کی خوبصورت پگڈنڈیوں کو محفوظ بنانے کے لیے مارگلہ ٹریل پٹرول کا آغاز کر رہے ہیں ، وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا ٹویٹ
-
وزیراعلی مریم نواز شریف نے جگر کے عارضہ میں مبتلا پروفیسر ایس ایم منصور کے علاج کیلئے 13 لاکھ روپے امداد کی منظوری دیدی
-
ایف بی آرکا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ناکام
-
خیبر پختونخواہ حکومت کا لاکھوں ٹن گندم کی خریداری کا فیصلہ
-
بھارتی شہری نے پاکستانی لڑکی کو دل کا عطیہ کرکے نئی زندگی دے دی
-
نجی شعبہ زراعت تبدیل کرنے میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے، وزیرخزانہ
-
افغان شہریوں کو ڈھائی لاکھ روپے لیکر شناختی کارڈ جاری کرنیوالا نادرا کا افسر گرفتار
-
وزیر اعلیٰ مریم نواز سے ہالینڈ کی سفیر مسز ہینی ڈی وریس کی ملاقات، ڈچ کمپنیوں کوسرمایہ کاری کی دعوت
-
عمران خان کو ریاستی اداروں کے خلاف بیانات سے اجتناب برتنے کے حکم پر تنقید و سوالات
-
وزیردفاع کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ اجلاس میں شرکت ، فاعی تعاون کے اقدامات سمیت علاقائی سلامتی کے امورکا جائزہ لیا
-
وزیراعلی مریم نواز نے جگر کے عارضہ میں مبتلا پروفیسر ایس ایم منصور کے علاج کیلئے 13 لاکھ روپے امداد کی منظوری دیدی
-
گھریلو اور کمرشل سولر پینل لگانے والوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز سامنے آگئی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.