صدر آزاد کشمیرنے جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے نو نکاتی فارمولہ پیش کر دیا

او آئی سی بھارت کے خلاف معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے مہم شروع کرے ، سردار مسعود خان کا او آئی سی کشمیر رابط گروپ سے خطاب

جمعرات 30 مئی 2019 18:15

مظفر آباد+ جدہ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 مئی2019ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے اور خطے کو کشیدگی سے پاک کرنے کے لیے نو نکاتی فارمولا پیش کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے اس اتحاد پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کو بین الاقوامی طور پرتسلیم شدہ حق خود ارادیت دلانے کے لیے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔

اسلامی تعاون تنظیم کے چودہویں سربراہی اجلاس سے قبل تنظیم کے رابطہ گروپ برائے کشمیر کے اجلاس میں جموں و کشمیر کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے او آئی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کو ختم کرانے اور مسئلہ کشمیر کو طاقت سے حل کرنے کے بجائے بات چیت اورسفارتی ذرائع سے حل کرنے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے اور مقبوضہ جموںو کشمیر سے اپنی قابض فوج کو فوری طور پر انخلاء کرنے کے لیے بھارت کو مجبور کیا جائے ۔

(جاری ہے)

اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے تجویز کیا کہ او آئی سی بھارت سے مطالبہ کرے کہ وہ بھارت کے رسوا ئے زمانہ تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنما یاسین ملک، شبیر احمد شاہ اور آسیہ اندرابی کو رہا کرے اور حریت کانفرنس کے رہنمائوں سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور دوسرے رہنمائوں پر قید و بند کی سختیاں ختم کرے ۔

انہوں نے تجویز کیا کہ او آئی سی مسئلہ کشمیر کے تمام فریقوں کی مدد اور سہولت فراہم کرے تاکہ وہ باہم بات چیت ، ثالثی ، مصالحت سمیت دیگر پُر امن ذرائع اور کشمیر الجہتی سفارت کاری کے ذریعے تناز عہ کشمیرکا پرُ امن ، منصفانہ اور قابل عمل حل تلاش کر سکیں۔ صدر آزاد کشمیر نے اپنے نو نکاتی فارمولے میں یہ بھی تجویز کیا کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے با ضابطہ درخواست کرے کہ وہ مداخلت کر کے تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کریں۔

صدر مسعود خان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں او آئی سی کے رکن ممالک کی طرف سے بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری مقرر کرنے کا مطالبہ کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے اپنے آخری نکتے میں اسلامی تعاون تنظیم پر زور دیا کہ وہ او آئی سی کے اپنے انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر میں قائم مہاجرین کشمیر کے کیمپوں میں اسلامی ترقیاتی بینک اور اسلامی یکجہتی فنڈ کے تعاون سے روزگار ، صحت اور تعلیم کے منصوبے شروع کرے اوربھارت کو انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اس کے خلاف معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے راہ ہموار کرے ۔

اُنہوں نے اسلامی تعاون تنظیم اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ صرف جنوبی ایشیاء میں کشیدگی کم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے اُس تنازعہ کو حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں جو خطہ میں دائمی دشمنی اور منافرت کا بنیاد ی سبب ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سال 26 فروری کو بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت اور پاکستانی رد عمل نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کر دی کہ اگر جموں و کشمیر کے تنازعہ کو حل نہ کیا گیا تو خطہ بدستور جنگ اور جوہری کشید گی کی لپیٹ میں رہے گا ۔

قبل ازیں اپنے خطاب میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ اس سال مارچ میں ابو ظہبی میں اسلامی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال نہایت دگر گوں ہو چکی ہے ۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی قابض فوج نے نہتے اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام ، اندھا دھند گرفتاریوں ، جبری گمشدگیوں ، دوران حراست تشدد سے ہلاکتوں ، جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو شہید کرنے ، خواتین کی بے حرمتی اور پر امن مظاہرین کے خلاف پیلٹ گن کے استعمال سے اُنہیں بصارت سے محروم کرنے کے واقعات میں کئی گناہ اضافہ ہو چکا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی فوج میدا ن صاف کرنے (Scorched Earth Policy) پر عمل کرتے ہوئے شہریوں کے رہائشی مکانات کو بارود سے اُڑانے اور ا ن کے کاروبار ، باغات اور فصلوں کو وحشیانہ انداز میں تہس نہس کرنے میں مصروف ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دو نتظیموں کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خا ن نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں قید سیاسی اسیروں کے خلاف تشدد اور ٹارچر اب معمول بن چکا ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ جیلوں میں قید سیاسی اسیروں جن کی غالب اکثریت عام شہریوں پر مشتمل ہے اورانہیں تشدد اور ٹار چر کے جن و حشیانہ حربوں کا سامنا ہے اُن میں ٹھنڈے پانی میں غوطے لگوانا ، برقی کر نٹ لگانا ،لوہے کی گرم سلاخوں سے قیدیوں کے جسم کو داغنے اور جنسی تشدد سمیت دیگر کئی حربوں کی طویل فہرست ہے ۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں قائم کل جماعتی پارلیمانی کشمیر گروپ کی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے رپورٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ ان رپورٹوں میں نا قابل تردید شواہد کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح بھارت کی فوج وحشیانہ اور انسانیت سوز حربوں سے کشمیر کے اندر قتل ، جنسی تشدد ، اور پیلٹ گنوں کے استعمال سے لوگوں کو بصارت سے محروم کرنے جیسے جرائم کا بے دریغ ارتکا ب کر رہی ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ انسانیت کے خلاف ان جرائم کی تفصیلات جمع کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے انسانی حقوق کونسل سے سفارش کی کہ وہ کمیشن آف انکوائری مقرر کرے تاکہ وہ مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی ہولناک صورتحال کا مذید تفصیل سے جائزہ لیا جا سکے ۔ اُنہوں نے کہا کہ دونوں رپورٹوں میں بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کو فوری طور پر منسوخ کرے جو قا بض فوج کو سنگین اور انسانیت دشمن جرائم کا ارتکاب کرنے کے اختیارات دیتے ہیں۔

صدر آزاد کشمیر نے اپنے خطاب میں یورپی پارلیمنٹ کی ایک ذیلی کمیٹی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر منعقدہ ایک سماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سماعت کے بعد یورپی پارلیمنٹرین نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے تنازعہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ صدر آزاد کشمیر نے بھارت کی ریاست دہشتگردی کو انسانیت کے خلاف جرائم کی واحد وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 1989 ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ کشمیری بھارت کے جبر کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ جولائی 2016 سے لے کر اب تک ایک ہزار سے زیادہ کشمیریوں کی شہادت اور چھ ہزار سے زیادہ شہریوں کی غارت گر فوج کے ہاتھوں بصارت سے محرومی کے بعد بھارت نے دنیا کی جنگی تاریخ میں اپنے لیے سب سے بڑے ’’ ماس بلائنڈر ‘‘ کا نہایت قابل نفرت خطاب اور اعزاز اپنے نام کر لیا ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ آج مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ اسی ہزار بھارتی فوج موجود ہے جن میں اسی ہزار وہ فوجی بھی شامل ہیں جنہیں پلوامہ واقعہ کے بعد معصوم اور بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے کے لیے بلایا گیا تھا ۔ اس وقت بھارتی فوج کی اتنی بڑی تعداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ستر کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے لیکن حقیقت اس سے بھی مختلف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ 13 ملین کشمیریوں پر ساتھ لاکھ اسی ہزار فوجی ہر بارہ کشمیریوں کے خلاف ایک بھارتی فوجی کا تناسب بنتا ہے جس کی نظیر دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی ۔

پلوامہ حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ اس واقع کے بعد کشمیر بھارت سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے ۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی طرف سے بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کو منسوخ کرنے کا اعلان بین الاقوامی قوانین خاص طور پر چوتھے جنیوا کنونشن اور اس کے پروٹوکول ون کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں سکونت ، روزگار اور جائیداد حاصل کرنے، تعلیم اور تعلیمی وضائف حاصل کرنے کا بلا شرکت غیر حق دیتی ہے اور اگر بھارت اس قانون کو ختم کرتا ہے تو بین الاقوامی قوانین کے تحت اُ س کا یہ اقدام جنگی جرم کہلائے گا ۔ اُنہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ کشمیری عوام اسلا می تعاون تنظیم کو اپنا خاندان تصور کرتے ہیں اور وہ مشکل ، دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں اور موت ، تباہی اور خوف کے سائے میںاس عالمی اسلامی فورم کی طرف اُمید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔

اُنہوں نے کہا کہ کشمیر کی دھرتی کے فرزند اپنے شہیدوں کی لاشیں گنتے ہوئے اور اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک دن وہ اپنی سر زمین پر ضرور آزاد ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے وہ دکھ اُٹھائے ہیں اور وہ مصائب سہے ہیں جو شاید ہی حالیہ انسانی تاریخ میں کسی دوسری قوم نے سہے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ پر عز م ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ وہ آزادی کی جدوجہد میں ایک دن ضرور سرخرو ہوں گے خواہ اس کے لیے انہیں کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔

صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیری جنگ نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کی سر زمین نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بننے کے بجائے خطے میں امن کا پل بن جائے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اہل کشمیر کا یہ وہ خواب ہے جس کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اُن کا ساتھ دیا جائے ۔