الیکٹیبلز کون ہیں اور سیاست میں ان کا کیا کردار ہے؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 29 مارچ 2022 20:40

الیکٹیبلز کون ہیں اور سیاست میں ان کا کیا کردار ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مارچ 2022ء) مبصرین کے خیال میں الیکٹیبلز کی دو اقسام ہیں۔ کچھ ایسے خاندان ہیں جو روایتی طور پر کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور وہ اپنے حلقہ انتخاب سے الیکشن جیت کر ایوان میں آتے ہیں لیکن کچھ ایسی شخصیات ہیں جو کسی بھی پارٹی میں ہوں الیکشن جیتتے ہیں۔ آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑیں، جب بھی الیکشن جیتے ہیں اور اگر پارٹی تبدیل کر لیں تو بھی الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ان الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ پارٹیاں بدلتی رہی ہے۔ ماضی میں سابقہ فاٹا کے اراکین، جنوبی پنجاب کے کئی خاندان، شمالی اور وسطی پنجاب کے بااثر گھرانے، بلوچستان کے کئی قبائلی سردار، سندھ کے دیہی علاقوں کے وڈیرے اور خیبرپختونخوا کے خان بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار امداد قاضی کا کہنا ہے کہالیکٹیبلز وہ ہوتے ہیں جو سیاسی جماعت کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ سیاسی جماعت ان کی محتاج ہوتی ہے اور اگر وہ آزاد بھی کھڑے ہوجائیں تو بھی ان کی جیت لازمی ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جانے والے درجن بھر ارکان قومی اسمبلی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ الیکٹیبلز ہیں جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے نون لیگ نے 100 سے زائد الیکٹیبلز کو اپنی صفوں میں جگہ دی۔

پنجاب کے سیاسی گھرانے

گجرات کے چوہدری، رحیم یار خان اور ملتان کے مخدوم، میانوالی میں نواب آف کالا باغ کا گھرانہ، ڈی جی خان میں کھوسے، دریشک اور لغاری، جھنگ کے سید اور شیخ۔

کوٹ ادو اور مظفر گڑھ کے کھر اور جتوئی، چکوال کے ٹمن اورملتان کے مخدوم، گردیزی، سید اور گیلانی سمیت پنجاب بھر میں کئی ایسے گھرانے ہیں جو سیاسی گھرانے تصور کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی وابستگی سیاسی جماعتوں سے ہے جبکہ کچھ ایسے ہیں جو سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جن کا ایک بھائی مسلم لیگ نون میں، دوسرا پیپلز پارٹی میں اور تیسرا تحریک انصاف میں شامل ہے۔

لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فاروق سلہریا کا کہنا ہے پنجاب میں کئی ایسے گھرانے ہیں جو برطانوی نوآبادیاتی دور سے اقتدار میں شریک رہے ہیں اور تقسیم ہند کے بعد بھی مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پنجاب کے ہر ضلع میں آپ کو الیکٹیبلز ملیں گے جیسے کہ ناروال میں میاں رشید اور دانیال عزیز کے گھرانے دو تین پارٹیاں بدل چکے ہیں۔

بالکل اسی طرح اٹک میں غلام سرور کی فیملی نے، جہلم میں فواد چودھری کی گھرا نے نے، ملتان میں یوسف رضا گیلانی کے گھرانے نے اور چکوال میں ٹمن فیملی نے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں تبدیل کیں۔‘‘

سندھ کے الیکٹیبلز

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار امداد قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شکار پور سے غوث بخش مہر کا گھرانہ، نوشہرو فیروز سے غلام مرتضیٰ جتوئی کا گھرانہ، گھوٹکی سے مہر فیملی، شہدادکوٹ سے مگسی فیملی، جیک آباد سے بجارانی اور جکھرانی، تھرپارکر سے ارباب رحیم اور رانا چندر سنگھ کے گھرانے اور ٹھٹھہ سے شیرازی سمیت سندھ بھر میں کئی ایسے سیاسی گھرانے ہیں جو انتخابات جیتتے ہیں چاہے ان کو کوئی پارٹی ٹکٹ دے یا نہ دے اور ان گھرانوں کے افراد نے پارٹیاں بھی بدلی ہیں۔

‘‘

بلوچستان کا منظر نامہ

بلوچستان کے شہر تربت سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار نثار احمد بزنجو کا کہنا ہے کہ پورے ملک کی طرح بلوچستان میں بھی کئی سیاسی گھرانے یا الیکٹیبلز ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لسبیلہ سے جام یوسف اور اسلم بھوتانی کے گھرانے، بولان سے یارمحمدرند کا خاندان، جعفرآباد سے ظفراللہ جمالی، سابق گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی اور ظہور کھوسہ کے گھرانے، خضدار سے ثناء اللہ زہری کا گھرانہ، مستونگ سے نواب اسلم رئیسانی اور نواب شاہوانی کے گھرانے، کوہلو چنگیز مری اور گزین مری کا گھرانہ اور ڈیرہ بگٹی سے اکبر خان بگٹی کا گھرانہ الیکٹیبلز رہا ہے اور ان کے افراد نے سیاسی جماعتیں بھی تبدیل کی ہیں۔

‘‘

نثار احمد بزنجو کے مطابق مکران ڈویژن سے ظہور بلیدی، اکبر عسکانی اور کچھ اور الیکٹیبلز ہیں، جو سیاسی جماعتیں بھی تبدیل کرتے رہے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا سے لکی مروت سے سلیم سیف اللہ کی فیملی سیاسی جماعتیں بدلتی رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ مردان سے ہوتی، پشاور سے ارباب فیملی اور سابقہ فاٹا کے بیشتر ملک سیاسی جماعتیں بدلتے رہے ہیں۔‘‘