
پاکستان میں خوراک کا بڑھتا ہوا بحران ‘آنے والے دنوں میں خوراک کی بدترین قلت پیدا ہونے کا خدشہ
آٹے‘چاول ‘دالوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ‘ بلیک مارکیٹ اور اس کو حاصل طاقتور حلقوں کی سرپرستی سے ملک میں خوراک کا ایسا بحران پیدا ہونے جارہا ہے جس میں ملک میں انارکی کا خطرہ ہے‘ حکومتی کے معاشی پلان بری طرح فیل ہوئے ہیں ملک مافیازکے قبضے میں ہے جبکہ مسابقتی کمیشن خاموش تماشائی کا کردار رہا ہے.ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم اور دیگر ماہرین کا اظہار خیال
میاں محمد ندیم
ہفتہ 24 ستمبر 2022
13:42

(جاری ہے)
وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ہفتے کے مقابلے میں آٹے کی قیمت میں 15 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں تقریباً 13 فیصد اضافہ ہوا ہے ادارہ شماریات کے مطابق آٹھ ستمبر کو دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 774 روپے تھی جبکہ اس کے مقابلے میں 15 ستمبر کو یہی دس کلو تھیلے کی قیمت 880 روپے ہے جو تقریباً 13 فیصد اضافہ ہے. اس سلسلہ میں ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلیک مارکیٹ اور اس کو حاصل طاقتور حلقوں کی سرپرستی سے ملک میں خوراک کا ایسا بحران پیدا ہونے جارہا ہے جس سے ملک میں انارکی پھیلے گی کیونکہ کھانے پینے کی اشیاءعام شہریوں کی پہنچ سے پہلے ہی دور ہوچکی ہے رہی سہی کسر حکومت تیل‘بجلی اور گیس کے بلوں سے پوری کررہی ہے. انہوں نے کہا کہ ایک عام گھرانہ اپنی مجموعی آمدنی کا50فیصد تک صرف بجلی کے بلوں میں اداکررہا ہے تو دوسری جانب موبائل فون پر پیغامات کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے شہریوں کو ہراساں کیا جارہا ہے موجودہ صورتحال میں 50ہزار ماہانہ آمدنی والا غریب ہے کیونکہ اپنی آدھی تنخواہ وہ یوٹیلٹی بلوں میں دے دیتا ہے باقی آدھی سے وہ بچوں کی تعلیم‘خوراک اور دیگر گھریلو اخراجات پورے کرتا ہے . انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ حکومت نے جن شرائط پر آئی ایم ایف سے قسط وصول کی ہے وہ ناقابل عمل ہیں مگرحکمران اتحاد تمام تر بوجھ عوام پر ڈال رہا ہے حکومت کی جانب سے دوست ممالک سے ملنے والی امدادی رقوم کے دعوے بھی محض دعوے کی ثابت ہوئے ہیں. تجزیہ نگار‘مصنف اور”اردوپوائنٹ“کے ایڈیٹر میاں محمد ندیم نے کہا کہ حکومتی کے معاشی پلان بری طرح فیل ہوئے ہیں یہاں تک وزیرخزانہ خود اعتراف کررہے ہیں کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی عام پاکستانی حکمران اتحاد پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں یہ بات شرمناک ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بار بار یقین دہانیاں کروانی پڑیں کہ ان کی حکومت ہر پیسے کو شفافیت سے خرچ کرئے گی. خوراک کے بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک قومی اخبار میں انہوں نے دس‘بارہ سال پہلے اس سلسلہ میں مضامین لکھے تھے کہ ہمیں متبادل ذرائع کو اختیار کرنا ہوگا مگر ہمارے ہاں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہے جو کک بیکس کے بغیر کام کرنے کی عادی نہیں انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک بھارت نے گندم کے ساتھ باجرہ‘جوار اور جو کی فصلوں کو بڑھایا ہے اور ان اناجوں کو ملاکر آٹا بنایا جارہا ہے جو انتہائی صحت بخش ہونے کے ساتھ ساتھ سستا بھی پڑتا ہے ہم ایک دہائی سے ہر حکومت کو لکھ رہے ہیں کہ وہ اس جانب توجہ دے مگر عام شہری کا مسلہ ہونے کی وجہ سے اسے کسی حکومت کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی. میاں ندیم نے کہا کہ اسی منصوبے میں کک بیکس کا راستہ بنادیں تو ہماری افسرشاہی اسی منصوبے کو نجات کا واحد راستہ قراردے گی انہوں نے کہا کہ اس کی بڑی مثال یوای ٹی کے ایک ماہر نے جب لاہور کے مین سیوریج سسٹم سے گیس حاصل کرنے کی تجویزپیش کی تو اسے ہر جگہ دھکے ملے ‘ان دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ لاہور سمیت بڑے شہروں کے سیوریج سسٹم سے بڑی مقدار میں بائیو گیس حاصل کی جاسکتی ہے جو ضائع ہوجاتی ہے پاکستان کے اس ماہر کی تحقیق سے بھارت سمیت کئی ملکوں نے استفادہ کیا اور سیوریج سے بائیو گیس حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کرکے عملا ثابت کردیا کہ بڑے شہروں کے سیوریج سسٹم سے بائیو گیس حاصل کی جاسکتی ہے. انہوں نے کہا کہ بائیو گیس کے اس منصوبے کو پاکستان میں پذیرائی اس لیے نہیں مل سکی کہ ہماری افسرشاہی جو کفن بھی عوام کے پیسوں سے ہی لینا چاہتی ہے اسے اس میں کک بیکس نظرنہیں آئے یہ ہمارا المیہ ہے ان کے بچے بیرون ممالک جو کاروبار کرتے ہیں اور جائیدادیں لے کربیٹھے ہیں وہ کک بیکس کی کمائی کی ہیں. میاں محمد ندیم نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ہمیں پچھلی کئی دہائیوں سے ان ملکوں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے جو بدترین فوڈ سیکورٹی کا شکار ہیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم اس حال کو کیسے پہنچے ؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے ہی شہریوں کے خلاف” غداری“ کی جارہی ہے چینی بحران ہو یا آٹا بحران آج تک ان کی رپورٹس مکمل طور پر منظرعام پر کیوں نہیں لائی جاسکیں؟شوگر کارٹیل ہو یا آٹا کارٹیل ان کی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیئے گئے ہیں؟. حکومتوں کے اندر بیٹھے ان مافیازکے نمائندے حکومت کو بلیک میل کرکے عام شہری کی زندگیاں اجیرن کررہے ہیں مگر حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے کسی جگہ حکومتی رٹ نظرنہیں آتا. انہوں نے کہا کہ ملک میں 73سالوں سے رائج برطانوی طرزجمہوریت اور افسرشاہی پاکستان اور پاکستانیوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ملک کو پونے دو سو یا دو سو سال پرانے قوانین کے تحت چلانے کے لیے ہر حکومت زور لگاچکی ہے مگر ناکامی اس کا مقدر بنی ہماری آج تک کی ناکامیوں کے پیچھے یہی وجہ ملے گی انہوں نے کہا کہ حکومت کی نیت نیک ہوتو چھ ماہ کے مختصرعرصے میں ان کارٹیل کو توڑا اور ملک کودوبارہ خوراک ‘ لائیواسٹاک اور ڈیری میں خودکفیل بنایا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے سب سے پہلے ان شعبوں سے غلامانہ کالونیل سوچ رکھنے والی بیوروکریسی کو نکالنا ہوگا . انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے مگر آج تک ہم نے اسے انڈسٹری ڈکلیئرنہیں کیا . سنیئرتجزیہ وکالم نگار جنیدنوازچوہدری نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری نصف کے قریب گندم گودام نہ ہونے کی وجہ سے کھلے آسمان کے نیچے پڑی ضائع ہوجاتی ہے شوگر مافیا اور آٹا مافیا کی اجارہ داری کو توڑنے کے لیے حکومت کسانوں کو اجازت دے کہ وہ چاہیں تو اپنے گنے کا گڑبنا کرفروخت کریں یا شوگر ملوں کو فروخت کریں اسی طرح عہد غلامی کے قائم کردہ ملوں کے لائسنس نظام کو ختم کردیا جائے جو بھی شہری چھوٹا یا بڑا یونٹ لگانا چاہے وہ صرف ایک کمپنی رجسٹرڈ کرواکر فیکٹری لگالے اس کے لیے مشنری کی درآمد پر ڈیوٹی کو ختم کردیا جائے یا مقامی طور پر مشنری تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے. شہریوں کا کہنا ہے کہ سرکاری آٹا تو مجبور ی میں لیتے ہیں ورنہ وہ تو خوراک کے قابل ہی نہیں ہوتا لیکن ساتھ میں فائن آٹا لے کر دونوں سرکاری تھیلے اور فائن آٹے کو ملا کر گھر میں اس سے روٹی پکائی جاتی ہے جو قدرے بہتر ہوتی ہے رکشہ ڈرائیور اسماعیل خٹک نے کہا کہ انہوں نے سرکاری آٹے کا تھیلا خریدا جسے کھانے کے بعد ان کا پورا گھر بیمار پڑگیا تھوڑے پیسے بچانے کی کوشش میں ہزاروں روپے ڈاکٹروں کو دینا پڑتے ہیں سرکاری آٹا کھانے والوں کو . پاکستان گندم کے پیداوار میں دنیا کے دس ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جس کی سالانہ پیداوار تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ ٹن ہے جبکہ گندم پاکستانی عوام کی خوراک کا 60 فیصد حصہ ہے پچھلے مالی سال کے حکومت نے نو ملین ہیکٹیئر زمین پر 2.8 کروڑ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف رکھا تھا لیکن خراب موسمی حالات اور گندم کی سرکاری قیمت کی وجہ سے سپارکو کے مطابق حکومت یہ ہدف پورا نہیں کر سکی. سپارکو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا صوبہ پنجاب ہے جہاں پر ملک کے مجموعی 90 لاکھ ہیکٹیئر زمین پر 60 لاکھ ہیکٹیئر گندم پنجاب میں پیدا ہوتی ہے جبکہ باقی ماندہ گندم سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتی ہے اب اگر ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں ہے اور حکومت کہتی ہے کہ آئندہ پانچ مہینوں کے لیے گندم موجود ہے تو پھر مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے. پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب چیپٹر کے چیئرمین عاصم رضا کا کہنا ہے کہ یہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ حکومت بد انتظامی ہے انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس گندم پڑی ہے لیکن وہ فلور ملز کو نہیں دے رہی جس کی وجہ سے آٹے کی ملیں اوپن مارکیٹ سے گندم خریدتی ہیں، اور اس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے انہوں نے بتایا کہ فی من (40 کلوگرام) گندم کی قیمت ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار روپے ہے اور اسی پر گندم خریدیں گے تو ظاہری بات ہے قیمتوں میں اضافہ تو ہو گا. انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے سرکاری گوداموں میں پڑی گندم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے انہوں نے بتایاکہ 80لاکھ ٹن گندم میں ایک لاکھ ٹن خراب بھی ہو جائے تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اس سے کوئی قلت پیدا ہو گی یا قیمتوں میں اضافہ ہو گا لیکن حکومت فلور ملز کو گندم نہیں دے رہی اور یہی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے. عاصم نے بتایا کہ اب اس مسئلے کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہم کسی ہڑتال کا سوچ رہے ہیں کیونکہ ہمیں جس قیمت پر گندم ملے گی تو اسی پر آگے ہم اس کو بیچیں گے لیکن اگر حکومت کی طرف سے گندم ملتی ہے تو اس کو سرکاری نرخ پر عوام کو دیں گے عامر حیات بھنڈارا ماہر اجناس و کاشت کاری ہیں اور’ ’ایگریکلچر ریپبلک اینڈ ڈیجیٹیل ڈیرہ“ کے شریک بانی ہیں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گندم سب سے زیادہ پنجاب میں پیدا ہوتی ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے پنجاب میں گندم کو بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا انہوں نے بتایا کہ حکومت جو کہتی ہے کہ گندم کی کوئی کمی نہیں ہے تو بالکل صحیح کہہ رہی ہے لیکن پچھلے سال حکومت نے کاشت کاروں سے 2200 روپے فی من خریدی تھی لیکن خریدنے کے بعد اوپن مارکیٹ میں یہ قیمت 2700 روپے فی من تک پہنچ گئی. امیر حیات نے بتایا کہ اب اوپن مارکیٹ میں 3500 روپے فی من مل رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کے پاس گندم تھی انہوں نے وہ مارکیٹ میں لے جانا بند کر دیا تھا کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے کہ یہ لوگ مصنوعی طریقے سے ذخیرہ اندوزی کر کے منافع کما سکیں انہوں نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں گندم سمیت گندم کے بیج کو بھی نقصان پہنچا ہے تو ابھی تو گندم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم آئندہ دنوں اور آئندہ سال گندم کی فراہمی کے لیے ایک اہم سال ہے.
مزید اہم خبریں
-
نادرا نے شہریوں سے اپنے فیملی ریکارڈ کی جانچ کرنے کی اپیل کردی
-
ہم صرف مشاورتی اجلاس کیلئے لاہور جا رہے ہیں کوئی جلسہ یا احتجاج نہیں کر رہے ، بیرسٹرگوہر
-
حکومت پر تنقید کرنے والے یوٹیوب چینلز کی بندش کا حکم معطل
-
ملک کا طاقتور طبقہ پولیس کو کنٹرول کر رہا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
-
دونوں انجنوں کو ایندھن سپلائی بند ہونے کے باعث ائیر انڈیا کا طیارہ گرنے کی وجہ بنی ، ابتدائی رپورٹ جاری
-
قدامت پسندوں کو لبھانے والی روس کی نئی ویزا اسکیم کیا ہے؟
-
ایئر انڈیا حادثہ: صرف تیس سیکنڈ میں طیارہ تباہ، رپورٹ جاری
-
حمیرا اصغر کی اندوہناک موت؛ طوبیٰ انور نے فنکاروں کے حالات سے آگاہ رہنے کیلئے سپورٹ گروپ بنالیا
-
بھارت کا انور رٹول آم جو پاکستان کا سفارتی تحفہ بن گیا
-
بیٹے شہید ہوئے وہ وطن پر قربان ہو گئے، لورالائی میں دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید بیٹوں کی تدفین پر والدہ کا گلدستہ لئے پاکستان زندہ باد کے نعرے
-
بیٹی کے قتل کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہیں؟،صحافی کا سوال، جو اللہ بہتر سمجھے گا وہی ہوگا، مرحومہ حمیرا اصغر کے والد کا جواب
-
پاکستانیوں کے اماراتی ورک ویزہ مسائل جلد حل ہونے کا امکان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.