ماضی میں بھی سیلاب آتے رہے ہیں لیکن اس سال آنے والا سیلاب غیر معمولی تھا جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی، وزیراعلیٰ سندھ

ہماری تاریخ میں ایسے سیلاب پہلے کبھی نہیں آئے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔اس صورتحال سے صرف سندھ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہوا ہے ، سندھ اسمبلی میں اظہار خیال

پیر 5 دسمبر 2022 20:40

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2022ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ماضی میں بھی سیلاب آتے رہے ہیں لیکن اس سال آنے والا سیلاب غیر معمولی تھا جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی اور جانی و مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا۔وزیر اعلی سندھ نے یہ بات پیر کو سندھ اسمبلی کے ایوان میںمون سون کی بارشوں ، سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس حوالے سے حکومت سندھ کے اقدامات پر ایک تحریک التو اپر تقریر کرتے ہوئے کہی ۔

سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں ایک گھنٹہ 25 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تھا، ایوان بارشوں اور سیلاب سے متعلق اس تحریک التوا پر تین روز تک بحث کرے گا۔وزیر اعلی سندھ نے خطاب میں کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسے سیلاب پہلے کبھی نہیں آئے،حکومت اور اپوزیشن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔

(جاری ہے)

اس صورتحال سے صرف سندھ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہوا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں اس بات کی پیش گوئی کی گئی تھی کہ سندھ میں 60 ملی میٹر بارش ہوگی ،ہمیں سمجھے تھے کہ 20 فیصد زیادہ بارش ہوں گی۔اس پیش گوئی کے نتیجے میںایک ابتدائی طور پر جو حساب لگایا تھا اس کے مطابق 62 ہزار فیملی متاثر ہوسکتی ہیں۔ہم نے 90 ہزار ٹینٹ کا اسٹاک رکھنے کی بات کی۔86ہزار ٹینٹ ہمارے پاس موجود تھے جبکہ این ڈی ایم اے کے پاس 5 ہزار ٹینٹ تھے۔

ہم نے 20 فیصد زیادہ بارش کی تیاری کی تھی۔جون میں سب سے پہلے بارش ہوئی ،ایک دن میں 52 ملی میٹر بارش پڑ گئی۔ مراد علی شاہ نے کہاکہ جولائی میں کراچی میں بھی سڑکیں ڈوبی ہوئی تھیں۔لیکن 2020 کی نسبت جلدی پانی نکالا تھا۔پڈعیدن میں 535 ملی میٹر بارش ہوئی۔بدین میں 335 ملی میٹر بارش ہوئی۔اس سال جولائی کے ایک مہینہ میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تیاری تھی۔

لیکن رب کو کچھ اور منظور تھا۔17اگست سے جو بارش ہوئی وہ کئی روز جاری رہی ۔پڈعیدن 1228 ، لاڑکانہ 778 ملی میٹر بارش ہوئی۔حیدر آباد میں 505 ملی میٹر بارش ہوئی ،کراچی میں سرجانی میں 292 ملی میٹر بارش ہوئی۔ہماری اوسط سے 800 فیصد سے زیادہ بارش ہوئی۔یہ اعداد و شمار این ڈی ایم اے نے خود جاری کئے ہیں۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارا ایوریج 60 ملی میٹر بارش کاہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر گڈو بیراج پر 6 لاکھ سے زیادہ پانی آ جائے تو پھر رب کی ذات ہی بچا سکتی ہے۔2010 سے 2011میں بھی سیلاب آئے تھے۔ 2020میں سیلاب آیا تھا مگر موجودہ سیلاب اتنا خطرناک تھا کہ اس سے روڈ، راستے، بندوں اور ریلوے سب کو شدید نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے تین دن میں تین متاثرہ اضلاع میں ٹینٹ بھیجے۔ مخالفین کی جانب سے بڑی باتیں ہوئیں کہ کچھ علاقے ڈوبے نہیں بلکہ جان بوجھ کر ڈوبوئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سندھ کی زمین سب سے زیادہ ذرخیر ہے۔وزیر اعلی نے کہا کہ ہمارے ہاں سیلاب کے زمانے میںبڑے بڑے ارسطو پیدا ہوئے، جن کی جانب سے کہاگیا کہ پنجاب میںاتنی بارش ہوئی وہاں پانی نکل گیا لیکن یہاں نہیں نکلا۔سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے 38لاکھ ایکٹر پر فصلیں تباہ ہوئیں۔8سو افراد جاں بحق ہوئے۔20 لاکھ 44 ہزار گھر متاثر ہوئے۔

80 فیصد کچے گھر تھے۔4لاکھ 36 ہزار مویشی ہلاک ہوئے ،111بلین کا روڈ سیکٹر کا نقصان ہوا۔صحت ، اسکول کی عمارتیں بھی تباہ ہوئی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ تباہی تو ہوگی اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ بحالی کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گی وزیر اعلی نے کہا کہ بحالی کے کاموں کے سلسلے میں بلاول بھٹو اور وزیر اعظم نے بہت کوششیں کی ہے۔ان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل آئے ۔

وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ حکومت سندھ متاچڑہ علاقوں سے پانی نکالنے کی اب تک کوشش کررہی ہے کیونکہ 2 لاکھ 40 ہزار ایکٹر پر ابھی بھی موجود پانی ہے ۔رائٹ بینک پر پانی موجود ہے جبکہ لفٹ بینک پر 44 ہزار ایکٹر پر ابھی بھی پانی ہے۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ خیر پور، قمبر شہداد کوٹ مختلف اضلاع میں ابھی بھی پانی ہے۔محکمہ آب پاشی نے کافی محنت کی۔

خیر پور میں کافی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ چار سیلابوں میں خیر پور میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن اس بار صورتحال پریشان کن تھی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ منچھر کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ پانی نہیں نکالا گیا۔میں نے کہا 106 فٹ پانی تھا ۔وہ علاقے جو کبھی نہیں ڈوبے تھے اس بار ڈوب گئے۔ حکومت سندھ نے جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکا وہ کیا۔

سندھ کے ہر ضلع میں دو دو بار گیا ہوں۔وزیر خارجہ نے اپنے غیر ملکی دورے ختم کئے ۔ ہم نے 8لاکھ 36 ہزار ٹینٹ دئیے۔جن میں6لاکھ سندھ حکومت کے تھے ، باقی ٹینٹ این ڈی ایم اے اور بھڑیہ اور فضائیہ کے بھی تھے۔سندھ میں 23 لاکھ 89 ہزار راشن بیگ دئیے گئے۔جن میں سے 17 لاکھ سندھ حکومت نے دئیے۔8ہزار این ڈی ایم ، ایک لاکھ غیر ملکی راشن بیگز دئیے گئے۔ اسی طرح متاثرین میں 12 لاکھ 87 ہزار سے زائد کمبل تقسیم کیے گئے۔

ریلیف کا کام ابھی تک چل رہا ہے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 2.7 ملین ایکٹر پر گندم کاشت کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے۔یہ ٹارگٹ پورا کریں گے۔حکومت سندھ نے 4ہزار روپے من گندم کی قیمت مقرر کی ہے 2ملین ایکٹر پر گندم کی کاشت ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ میںملیریا کے 5 لاکھ 43 ہزار ظاہر ہوئے۔22ہزار کیس ڈینگی کے تھے جن میں سے 60 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتا یا کہ سیلاب کے بعد حکومت سندھ نے ترقیاتی بجٹ میں87ارب کی کٹوتی کی ہے۔اس میں سی45ارب روپے کی بچت کرنے کا پلان ہے ۔وزیر اعلی نے کہا کہ ہم ورلڈ بینک سے بات کررہے ہیں۔گھر بنانے کے لیے ساڑھے تین سو ارب درکا رہیں۔بحالی کے لئے فنڈز کی فراہمی کا معاملہ ڈونر کانفرنس میں رکھیں گے۔ ہم نے این جی او ز کے ساتھ ملکر کام کیا ہے ،ایک ایک گھر پر گئے ہیں۔

جوائنٹ سروے کا کام مکمل ہوچکا ہے ۔ گھروں کی ازر نو تعمیر کے لئے 50ارب سندھ حکومت دے گئی۔ہم فی گھر تین لاکھ روپے دیں گے ۔اس منصوبے کے لئے مختلف این جی اوز کی خدمات حاصل کی ہیں۔ جب وہ بتائیں گی کہ کتنا گھر بن گیا ہے پھر دوسرے قسط دیں گے۔جو گھر تباہ ہووہ 80 کچے تھے ،اب ہم چاہتے ہیں پکے گھر بنیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ آب پاشی کی نظام۔کی بحالی کے لیے کام شروع ہوچکا ہے۔

مختلف پلان بنائے ہیں۔200 ملین ڈالر ہمیں ایشین ترقیاتی بینک دے رہا ہے۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم پر تنقید کریں لیکن یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔یہ نہ کہیں۔ کہ ڈوبویا گیا ہے پھر عام لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں۔موسمی تبدیلی کے باعث یہ نقصان ہوا ہے ۔عوام کو حقیقت بتائی جائے اگر ہمارے ملک سے بیرون ملک غلط باتیں جائیں گی تو اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے پیں۔ جھوٹا پروپیگنڈے سے آپ پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔جیسے ماضی میںنقصان پہنچاتے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی عوام میں ہے اور خدمت کرتے رہیں گے ۔2010کے سیلاب کی وجہ سے ہم 2013 میں منتخب ہوئے۔اگر بار پھر سندھ کے عوام ہمیں منڈیٹ دیں گے ۔ وزیر اعلی نے کہا کہ ہماری ہماری کوتاہیاں ضرور ہوں گی لیکن نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔

تحریک التوا پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اس موضوع پر بحث کے لئے دو دن اور بڑھائیں ۔انہوں نے کہا کہ جو باتیںوزیر اعلی نے کی ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ سندھ میںدودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جواب ہم بھی دیں گے بتائیں گے۔جو تباہی آپ نے کی ہے اس کا جواب دس منٹ کیسے دیں گی ۔

تحریک التواپر بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر آب پاشی جام خان شورو نے کہا کہ اس طرح کا سیلاب تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا۔انہوں نے بتایا کہ25اگست کو قمبر شہداد کوٹ میں تھا اسی شام کو ایف ٹی بند ٹوٹا۔بلوچستان کی بہت سی دیاروں کا پانی سیدھا ہمارے پاس آتا ہے۔ملا ریور میں کبھی ایک لاکھ کیوسک سے پانی نہیں آیا بلوچستان کے مطابق 2 لاکھ کیوسک آیا۔

انہوں نے کہا کہ میںوزیر اعلی سندھ کو داد دیتا ہوں۔ جنہوں نے دن و رات متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے محنت کی ۔ہمارے ارکان سندھ اسمبلی میں سیلاب متاثرین کے درمیان رہے ۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل خود کہا کہ بہت بڑی تباہی ہوئی ہے ۔ جام خان شورو نے کہا کہ اگر یہ بارش سینٹرل پنجاب میں ہوجاتی توپورے پاکستان کو بہت نقصان ہوتا ۔اب ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔

پوری اکنامی زراعت پرانحصار کرتی ہے۔ وزیر آب پاشی نے کہا کہ بارش قمبر شہدادکوٹ میں ہوئی مگر لوگ ڈیم کالا باغ میں بنانے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پانی وہاں کیسے لیکر جائیں گے۔دریائے سندھ ہماری زمینوں کے اوپر بہتا ہے۔ سیلاب میںایک لاکھ 41 ہزار ایکٹر پر پانی تھا۔پمپنگ اسٹیشن پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ان کو پانی سے نکالنا ہمارے لیے بڑا چیلنج تھا۔

تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا۔اگر زیادہ پانی آتا ہے تو ان کی کانپیں ٹانگ جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہالینڈ سطح سمندر سے نیچے ہے لیکن وہاں تو ایسی صورتحال نہیں ہوتی کیونکہ وہاں کے لوگوں نے اپنے ملک کو بچانے کے لیے اقدامات کئے ہیں۔2010کے سیلاب کے بعد فلڈ پروٹیکشن پلان بنایا جانا تھا ،اس کا پلان 2017 میں منظور ہو ا اس کے لیے 332 بلین رکھیے گئے اس کا کیا ہوا انہوں نے کہا کہ جب سیلاب آتا ہے تو کچھ لوگوں کی موجیں لگ جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مراد علی شاہ سول انجینئر ہیں۔بتائیں کہ ابھی تک سندھ میں کتنے گھر بنائے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا روٹی کپڑا اور مکان ی۔اس نعرے کے حساب سے اب تک سندھ میں سب کے پاس گھر ہونا چاہیے۔اب تک کچے مکان کیوں تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی جمہوریت نہیں ہے۔کمیٹیوں آپ اپنے مخالفین کو نہیں رکھتے ہیں۔فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ مجھے کالا باغ ڈیم سے کوئی محبت نہیں ہے۔کیا کوئی بھی ڈیم نہیں بننا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری قوم کو چوروں سے چھٹکارا دلادے۔بعدازاں سندھ اسمبلی اجلاس کامنگل کی دوپہر تک ملتوی کردیا گیا۔