Live Updates

بینکنگ کورٹ نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کر دی ،ہائی کورٹ نے درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا گیا

عمران خان کبھی عدالتوں کے روبرو پیش ہونے سے نہیں ہچکچائے، اب میڈیکل گراؤنڈز سب کے سامنے ہیں اور حقائق پر مبنی ہیں، وکیل

بدھ 15 فروری 2023 19:14

بینکنگ کورٹ نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کر دی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 فروری2023ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ اسلام آباد کو 22 فروری تک سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا۔ بدھ کو بینکنگ کورٹ نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو بدھ کو ہی عدالتی اوقات یعنی ساڑھے 3 بجے تک پیش ہونے کا حکم دیا تھا بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ کی جانب سے ویڈیو لنک پر حاضری کی عمران خان کی درخواست مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے بیان حلفی اور بائیو میٹرک سے متعلق اعتراض لگایا ہے، درخواست گزار طبی ناسازی کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہوسکے، بینکنگ کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، عمران خان 70 سال کے ہیں، زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

وکیل عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ ڈاکٹرز نے ابھی مزید 3 ہفتوں تک آرام کرنے کی ہدایت کی ہے، بیرسٹر سلمان صفدر نے عمران خان کے حوالے سے میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر اعتراض دور کرنے کی ہدایت کی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بیان حلفی لاہور ہائی کورٹ سے تصدیق کریں، وکیل عمران خان نے کہا کہ 70 سال یا اس سے اوپر کے لوگوں کے لیے بائیو میٹرک ضروری نہیں۔

عدالت نے کہا کہ لوگوں کی آسانی کے لیے ہی لاہور یا دیگر عدالتوں کے بیان حلفی جمع کرنے کا طریقہ کار بنایا گیا ہے۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم انکوائری میں شامل ہونا چاہتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ تو آپ ابھی تک شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئی ہم نے ایف آئی اے کو اسکائپ کے ذریعے شامل تفتیش ہونے کا کہا مگر ہماری بات نہیں مانی گئی، 22 اکتوبر 2022 سے عمران خان ضمانت پر ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر فیصلہ ابھی نہ کریں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ اس کیس میں ہم پہلے عدالت پیش ہوتے رہے مگر بیچ میں قاتلانہ حملہ ہوا، شاہ زیب قتل کیس کا سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جو پڑھنا چاہوں گا، ہم عدالت پیش ہونا چاہتے ہیں شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں، میں نے شوکت خانم ہسپتال کے میڈیکل شواہد درخواست کے ساتھ لگائی ہیں، عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عمران خان کی میڈیکل رپورٹ عدالت کو پڑھ کر سنایا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ڈاکٹرز نے عمران خان کو سفر سے منع کیا ہے، ابھی وہ سہارے کے ذریعے چہل قدمی کرتے ہیں، ڈاکٹر نے کہا کہ سفر کے دوران زخم پر بوجھ گیا تو تین مہینے پیچھے چلا جائے گا، ہم بیان حلفی جمع کرتے ہیں کہ ہم 28 فروری کو عدالت پیش ہوں گے۔عدالت نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ کوئی سرجری ہوئی ہی وکیل عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس ایکسرے موجود ہیں جو عدالت کو دکھاتے ہیں، دستاویزات بھی ہیں کہ سرجری ہوئی۔

عدالت نے کہا کہ ہم ماہر نہیں کہ ایکسرے دیکھ لیں، عدالت نے رجسٹرار آفس کو عمران خان کی اپیل پر نمبر لگا کر سماعت کے لیے آج ہی مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی بینکنگ کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے بینکنگ کورٹ کو 22فروری تک عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا۔

دوران سماعت وکیل عمران خان نے کہا کہ 17 اکتوبر کو عبوری ضمانت حاصل کی گئی، وزیر آباد کا واقعہ 3 نومبر کو ہوا ، واقعہ کے بعد چھ بار اور واقعے سے پہلے دو بار استثنیٰ کی درخواست کی گئی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ ستر سال کو آپ ایڈوانس ایج کہتے ہیں آپ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جی سر اس عمر میں زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کبھی عدالتوں کے روبرو پیش ہونے سے نہیں ہچکچائے، اب میڈیکل گراؤنڈز سب کے سامنے ہیں اور حقائق پر مبنی ہیں۔اس موقع پر عدالت عالیہ نے بینکنگ کورٹ کو 22فروری تک عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روکتے ہوئے آئندہ سماعت پر عمران خان کی تازہ میڈیکل رپورٹ بھی طلب کرلی۔قبل ازیں فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں بنکنگ کورٹ میں عمران خان کی عبوری ضمانت کے کیس کی سماعت ہوئی، جج بنکنگ کورٹ رخشندہ شاہین نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ میرے عدالتی عملے نے سب کو بتادیا کہ غیر ضروری افراد باہر نکل جائیں، میڈیا کے لوگ بھی باہر چلے جائیں۔اس دوران عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی، وکیل نے مؤقف اپنایا کہ معاملہ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے اس لیے وقفہ کیا جائے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جو بھی بات کہوں گا اس کے میڈیکل رپورٹ کی صورت میں ثبوت موجود ہیں، جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ آپ نے میرا گزشتہ سماعت کا آرڈر ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ اگر آپ میری درخواست سن کر ریلیف دے دیں تو ہائی کورٹ نہیں جاؤں گا، جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ آپ نے میرا آرڈر چیلنج کر رکھا ہے اس لیے ضرور جائیں۔عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دئیے کہ میں مختصر وقت میں عدالت کے سامنے گزارشات رکھوں گا، میں ہائی کورٹ میں آپ کے حکم کے خلاف قدم بھی نہیں رکھنا چاہتا، میں چاہتا ہوں آپ اوپن مائنڈ کے ساتھ ہمیں یہاں ہی سن لیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ موجود ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نہیں آسکتا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے اس کے باجود رضوان عباسی پر اعتراض نہیں اٹھایا، میں آج بھی ان پر اعتراض نہیں اٹھاؤں گا، پہلی بار بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے درخواست گزار کون ہے، عمران خان 70 سال سے زائد عمر کے آدمی ہیں، وہ ورزش کی وجہ سے سپر فٹ ضرور ہیں مگر عمر ستر سال سے زائد ہے۔انہوں نے استدلال کیا کہ کسی نوجوان کو بھی گولی لگے تو تین مہینے ریکوری میں لگتے ہیں، عمران خان کو تو عمر رسیدہ ہونے پر بائیو میٹرک سے بھی استثنیٰ ہے، اس دوران وکیل نے عمران خان کی ذاتی پیشی کے لیے تین ہفتوں کی مہلت طلب کی۔

عمران خان کے وکیل نے عمران خان کے ایکسرے بھی پیش کردیے، سلمان صفدر نے کہا کہ ہم سب ڈاکٹر بنتے ہیں تو یہ ایکسرے بھی دیکھ لیں، ہم صرف تین ہفتے مانگتے ہیں کہ وہ سپورٹ کے بغیر کھڑے ہوسکیں، اگر ہماری استدعا نہیں سننی تو لکھنا ہوگا ہمارا میڈیکل درست نہیں، یہ بھی لکھنا ہوگا کہ عمران خان کو گولیاں نہیں لگیں۔سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان اسلام آباد میں بھی نہیں ہیں۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عبوری ضمانت میں توسیع پر دلائل مکمل کیے تو شریک ملزم طارق شفیع کے وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ الزام لگایا گیا کہ ایک غلط بیان حلفی پی ٹی آئی نے دیا، پی ٹی آئی ایک پارٹی کا نام ہے کسی فرد کا نہیں، قانون کہتا ہے کوئی کلرک، افسر یا بینک حکام ایسا کریں تو قانون لاگو ہوگا۔میاں علی اشفاق نے استدلال کیا کہ طارق شفیع نہ پارٹی ہیں، نہ کلرک نہ افسر وہ ایک پرائیویٹ شہری ہیں، ممنوعہ فنڈنگ پر کریمنل کیس بنتا ہی نہیں تھا، میں آپ کے سامنے اس ایف آئی آر کا پوسٹ مارٹم کروں گا، آپ اس ایف آئی آر کو قبول کر بھی لیں آخر میں جرم نہیں نکلنا، ایک پراسیکیوشن نیک نیت ہوتی ہے ایک بدنیتی پر مبنی پراسیکیوشن ہوتی ہے، پی ٹی آئی کو مختلف شہروں میں بینک اکاؤنٹس میں فندز وصول ہوئے۔

میاں علی اشفاق نے کہا کہ مختلف شہروں میں آئے فنڈز پر الگ الگ ایف آئی آرز ہو گئیں، یہ مقدمات تو صغراں بی بی کیس کی بھی خلاف ورزی ہے، کہا گیا عارف نقوی نے غیر قانونی طور پر حاصل رقم منتقل کی، یہ ایک کھوکھلا اور بھونڈا الزام ہے۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کیا کوئی ڈاکومنٹ ہے یا کوئی بیان ریکارڈ ہوا یہ غیر قانونی فنڈز ہیں مسجد میں صندوق رکھا ہوتا ہے مختلف لوگ چندہ ڈال جاتے ہیں، مسجد کا کام نہیں ہے سب فنڈ دینے والوں کو جاکر پوچھے کمائی کہاں سے آئی، ایسے ہی کوئی این جی او بھی جاکر کسی سے نہیں پوچھتی کمایا کہاں سے ہے۔

میاں علی اشفاق نے دلائل دیے کہ عارف نقوی نے کوئی جرم بھی کیا ہو تو چندہ وصول کرنے والی پارٹی کیسے مجرم ہوئی الزام ہے کہ جرم عارف نقوی نے بیرون ملک کیا ہے، عارف نقوی کو وہاں سزا بھی ہو چکی تو ہم یہاں کیا کر رہے ہیں ایف آئی اے یہاں یہ سارے حقائق چھپا رہی ہے، کیس 2013 کا ہے اس وقت بھی یہی حکومت تھی، اٴْس وقت سے آٹھ سال تک یہ لوگ سوئے رہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اب ایسا کیا ہوگیا کہ سارے ادارے جاگ گئے، جاگیں ضرور جاگیں لیکن کسی اچھی جگہ پر جاگیں، طارق شفیع تو سیاسی شخص بھی نہیں ہیں، ایک ستر سال سال سے زائد عمر شخص پر یہ کیس بنا دیا گیا ہے، عارف نقوی کو پنالٹی باہر لگ چکی ایف آئی اے کے پاس اس کاریکارڈ ہی نہیں، کیا یہ کہہ رہے ہیں کسی دوسرے ملک کے جرم پر یہاں دوبارہ سزا دیں گی 30 کروڑ ڈالر اٴْن کی کمپنی کو وہاں جرمانہ ہو چکا یہ ایف آئی آر خود کہہ رہی ہے۔

وکیل نے استدلال کیا کہ عارف نقوی نے وہاں کیا ہوگا ڈیفالٹ اس میں یہ لوگ کدھر سے آئی عمران خان، طارق شفیع، عامر کیانی ان لوگوں کا اس میں کیا جرم ہی الیکشن کمیشن کی ایک الگ کارروائی ہوسکتی ہے کہ پارٹی کیسے ریگولیٹ ہوگی، اس عدالت کے سامنے اسے الگ جرم کیسے بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔اس موقع پر جج رخشندہ شاہین نے ریمارکس دیے کہ آپ غیر متعلقہ دلائل دے رہے ہیں، یہ صرف ضمانت کا کیس ہے، میں نے کوئی آبزرویشن نہیں دینی یہ محض ضمانت کا ہی کیس رہے گا، وکیل طارق شفیع نے کہا کہ انہی عدالتوں سے ضمانت سے آگے تک بھی بات گئی، فیصلے پڑھ کر سناؤں گا۔

جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ فیصلوں کی کاپی دے دیجئے گا، پڑھنے کی ضرورت نہیں، وکیل علی اشفاق نے کہا کہ میں تھوڑا حصہ تو عدالت کے سامنے پڑھوں گا کہ کیا فیصلے ہوئے۔جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ اس عدالت میں ایسا نہیں ہوگا، یہ ضمانت کا ہی کیس رہے گا، اپنے دلائل جلدی مکمل کریں، باقی لوگوں کو بھی سننا ہے، آپ کے پیچھے لمبی لائن ہے، ان سب کے وکلا کے بھی دلائل سننے ہیں۔

طارق شفیع کے وکیل نے کہا کہ عدالت اٴْن کو کل بھی سن سکتی ہے، سب کو مناسب موقع دیا جانا چاہیے، اس کے ساتھ ہی عمران خان اور شریک ملزمان کے وکلا نے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کہا گیا مسجد میں کوئی چندہ دے جائے تو کوئی نہیں پوچھتا۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا چندہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے یو اے ای میں نہیں، ملزمان کے وکلا نے دلائل میں جرم کا اعتراف کیا ہے، ٹرانزیکشن مان کر قبول کیا گیا سیکشن 5 سی کے تحت جرم کیا ہے، پراسیکیوشن کی طرف سے کوئی بدنیتی شامل نہیں ہے، طارق شفیع نے تفتیش میں تعاون بھی نہیں کیا۔

اس دوران جج نے استفسار کیا کہ کیا وہ شامل تفتیش نہیں ہوئی اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شروع میں شامل تفتیش ہوئے تھے پھر تعاون نہیں کیا، جج نے کہا کہ آپ نے بینک سے مکمل ریکارڈ نہیں لیا تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہماری اکاؤنٹس تک رسائی ہے مگر یہ کہتے ہیں خود ریکارڈ دیں گے۔جج نے کہا کہ عمران خان کا کوئی وکیل اس وقت عدالت میں ہی ہائی کورٹ نے ابھی اس عدالت کے لیے کوئی ڈائریکشن تو نہیں دی معاون وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ابھی ہائی کورٹ سے ایسا کوئی حکم سامنے نہیں آیا، ہائی کورٹ میں تو ان کی درخواست پر اعتراض لگا ہے، عمران خان کبھی کسی سرکاری ہسپتال میں کیوں نہیں گئی اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان کو کوئی ایسا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے ٹانگ میں معمولی کھچاو اور سوزش ہے، عمران خان کی نجی میڈیکل رپورٹ استثنیٰ کے لیے کافی نہیں، عمر رسیدہ ہونے کا موقف بھی قانون کے لیے اجنبی ہے۔

بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے عمران خان کی بدھ کوحاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو عدالتی اوقات یعنی ساڑھے 3 بجے تک پیش ہونے کا حکم دیا۔جج بینکنگ کورٹ نے کہا کہ عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کی جاتی ہے، اگر عمران خان پیش نہیں ہوتے تو قانون اپنا راستہ بنائے گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات