کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اپریل2023ء) وزیرمحنت و افرادی قوت
سندھ و صدر
پاکستان پیپلزپارٹی
کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا ہے کہ اس وقت اس ملک میں بہت سی ایسی چیزیں کی جارہی ہیں، جو اس ملک کو بہتری کی بجائے برائی اور بحرانوں کی جانب لے جارہی ہیں۔ملک میں ایک ایسا سیاستدان پیدا کیا گیا، پروان چڑھایا گیا، اقتدار میں لایا گیا، جس نے اس ملک کی بنیادیں ہلادیں اور وہ شخص جس طرح اپنے بیرونی آقائوں کے اشاروں پر چل کر
پاکستان کے اداروں کو
نقصان پہنچا رہا ہے، اداروں کو متنازعہ بنا رہا ہے،
پاکستان کے معاشرے کو تباہ کررہا ہے، اس ملک کی معیشت کو تباہ کررہا ہے،1977سے آج تک جو بھی
چیف جسٹس آئے ہیں چاہے وہ
افتخار چوہدری ہو یا گلزار احمد ہو یاپھر ثاقب نثار ہو، سب نے بغض
پیپلز پارٹی نکالی ہے،ہر
چیف جسٹس جو آیا ہے، اس نے
پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنا حساب کتاب چکتا کیا ہے،عدالتیں سپریم نہیں ہیں بلکہ
پارلیمنٹ سپریم ہے، ہمیں
سپریم کورٹ کی بجائے اس کا نام فیڈرل، اسلام آباد یا دیگر
کورٹ ہونا چاہیے کیونکہ
سپریم کورٹ کا نام رکھنے سے ہی شاید سب سے بڑی خرابی پیدا ہوئی ہے۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہید
ذوالفقار علی بھٹو کی 44 برسی کے موقع پر
پیپلز پارٹی ضلع شرقی کی جانب سے منعقدہ قرآن خوانی کی تقریب و افطار کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر حبیب جنیدی،ڈسٹرکٹ ویسٹ کے کنونئیر و
کراچی ڈویژن کے ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری محمد آصف خان، مرزا مقبول
،پیپلز پارٹی لیڈیز ونگ
کراچی کی صدر ایم این اے شاہدہ رحمانی، رکن
سندھ اسمبلی
شرمیلا فاروقی، ذوالفقار قائمخانی، نعمان شیخ، شہزاد ناتھا، راشد خاصخیلی، شمع مٹھانی، یاسمین بٹ،
ریاض بلوچ، سرور غازی، ڈسٹرکٹ ایسٹ کی تمام یونین کونسلز کے
بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اور پارٹی کارکنوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
سعید غنی نے کہا کہ اس وقت اس ملک میں بہت سی ایسی چیزیں کی جارہی ہیں، جو اس ملک کو بہتری کی بجائے برائی اور بحرانوں کی جانب لے جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ایک ایسا سیاستدان پیدا کیا گیا، پروان چڑھایا گیا، اقتدار میں لایا گیا، جس نے اس ملک کی بنیادیں ہلادیں اور وہ شخص جس طرح اپنے بیرونی آقائوں کے اشاروں پر چل کر
پاکستان کے اداروں کو
نقصان پہنچا رہا ہے، اداروں کو متنازعہ بنا رہا ہے،
پاکستان کے معاشرے کو تباہ کررہا ہے، اس ملک کی معیشت کو تباہ کررہا ہے اور آج یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ عدلیہ بھی اس کی وجہ سے تقسیم ہوگئی ہے۔
انہوںنے کہا کہ
عمران خان نے اس ملک کے کسی ادارے کو نہیں بخشا، اس نازی نے اس ملک کے کسی شعبہ کو نہیں بخشا۔ سعید غنی نے کہا کہ عمران نازی نے کوشش کی ہے کہ کسی طرح اس ملک کو چلانے والی مشینری کو مفلوج کرے اور بدقسمتی سے شاید کو کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ چار اپریل
شہید بھٹو کے چاہنے والے ہرسال مناتے ہیں، ہم ان کے ساتھ عہد تجدید بھی کرتے ہیں، ان کی پالیسیوں اور نظریات پر چلنے کا وعدہ بھی کرتے ہیں اور جو جو اس ملک کی ترقی کے لئے شہید
ذوالفقار علی بھٹو نے اقدامات کئے تھے اس پر ہم فخر بھی کرتے ہیں اور خاص طور پر شہید
ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین اس ملک کو دیا ہم نے ہمیشہ اس کے اکتفا کے لئے کوشیشں ، کاوشیں کی ہیں اور قربانیاں دی ہیں اور جدوجہد کی ہیں اور جانیں قربان کی ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ آج 4 اپریل 2023 کا دن بھی ہم سے یہ تقاضہ کررہا ہے کہ ہم شہید
ذوالفقار علی بھٹو کے آئین کو بچانے کے لئے، اس کے آئین کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے ، اس آئین کے تحت چلنے والے اداروں کو اس آئین کے تحت چلنے پر مجبور کرنے کے لئے ہم سب اٹھیں اور چیئرمین
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اور صدر آصف علی
زرداری کی قیادت میں آگے بڑھیں اور اس ملک میں آئین کی بالادستی کو قائم کریں اور آئین کے تحت جو کام جس ادارے کا ہے، وہ کام اس ادارے کو کرنے پر مجبور کریں۔
سعید غنی نے کہا کہ آج
سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ، اس میں
الیکشن کمیشن بھی وہ خود بن گیا، وہ ہر چیز خود کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ
میرا تو خیال ہے کہ یہ جو تین رکنی پی ٹی آئی کا جو بینچ ہے، اس کو چاہیے تھا کہ اس فیصلے کے آخر میں لکھ دیتے کہ اس ملک کا اگلا وزیر اعظم
عمران خان ہوگا اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی پی ٹی آئی سے ہوں گے ، صدر
پاکستان جو آئندہ ہوگا وہ بھی پی ٹی آئی کا ہوگا، آئندہ آنے والا آرمی چیف بھی پی ٹی آئی کا ہوگا،
چیف جسٹس آئندہ جو لگے گا وہ بھی پی ٹی آئی کا ہوگا، چیف
الیکشن کمیشنر بھی پی ٹی آئی کا ہوگا تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔
سعید غنی نے مزید کہا کہ جس طرح عدات کے مسند پر بیٹھ کر ، مقدس عہدوں پر بیٹھ کر جس قسم کے کام کئے جارہے ہیں، جس طرح اپنے لاڈلے کو بچانے اور اس کو آگے لانے کی کوشیشں کی جارہی ہیں، یہ کسی صورت اس ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اس ملک کے آئین کو بچانے کے لئے
پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے جتنی قربانیاں دی ہیں، اس ملک کے آئینی اداروںکو بچانے لئے دی ہیں، ان ججوں نے یا جو اداروں میں بیٹھیں ہیں کسی نے کچھ نہیں کیا۔
انہوںنے کہا کہ ہم نے اس ملک کے آئین، قانون اور اداروں کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، جیلیں کاٹی ہیں، کوڑے کھائیں ہیں۔ اگر سب کچھ کرنے کے بعد بھی
پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی صورت مناسب نہیں ہوگا۔ سعید غنی نے کہا کہ 1977 سے آج تک جو بھی
چیف جسٹس آئے ہیں چاہے وہ
افتخار چوہدری ہو یا گلزار احمد ہو یاپھر ثاقب نثار ہو، سب نے بغض
پیپلز پارٹی نکالی ہے۔
انہوںنے کہا کہ ہر
چیف جسٹس جو آیا ہے، اس نے
پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنا حساب کتاب چکتا کیا ہے،۔ سعید غنی نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں جس آئین کے تحت جو
چیف جسٹس بن کر آتا ہے، وہی اس آئین کو بنانے والی پارٹی کو اکھار کر پھیکنا شروع کردیتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ بار بار کہا جاتا ہے کہ عدالتیں سپریم ہیں ایسا نہیں ہے، عدالتیں سپریم نہیں ہیں بلکہ
پارلیمنٹ سپریم ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ ہمیں
سپریم کورٹ کی بجائے اس کا نام فیڈرل، اسلام آباد یا دیگر
کورٹ ہونا چاہیے کیونکہ
سپریم کورٹ کا نام رکھنے سے ہی شاید سب سے بڑی خرابی پیدا ہوئی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہمیں نام بدلنے چاہیے، سپریم
پارلیمنٹ ہونی چاہیے اور اسلام آباد میں بیٹھی عدالتیں سپریم نہیں ہونی چاہیے۔ سعید غنی نے کہا کہ
پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندوں نے آج 4 اپریل 2023 کے
سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور اس ڈسٹرکٹ ایسٹ میں بیٹھے ہمارا ایک ایک ذمہ دار بھی ہاتھ اٹھا کر اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ ججز عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہیں، وہ جو کہتے ہیں وہ عوام کی آواز نہیں ہے۔ عوام کی حقیقی آواز
پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمائندے ہیں۔ جو
پارلیمنٹ سے آواز اٹھتی ہے، وہ عوام کی آواز ہوتی ہے۔ اس لئے معزز جج صاحبان قانون او ر آئین کے تحت جو اختیار ہیں اسی کو ہی استعمال کریں، انہوںنے کہا کہ آج
سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے اچھے ججز ، آئین کو ماننے والے ججز،آئین کو فالو کرنے والے اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ
چیف جسٹس صاحب آپ غلط ہیں، اپ غلط فیصلے کررہے ہیں، تو خدا کے لئے اس بات کو مان لیجئے، کیونکہ کوئی ایسی تاریخ اب
پاکستان میں نہ بنے کہ
چیف جسٹس کو اپنے ہی ججز باہر نکال کر نہ پھینک دیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ آئین کے تحت اس ملک اور یہاں کی عدالتوں کو چلانا چاہیے۔