
سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکا تو ہائی کورٹ ججز کیسے کریں گے؟. جسٹس اطہرمن اللہ
ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپ کو مضبوط کرلے کہ کوئی رابطہ کی کوشش نہ کرے یا پھر کوئی ڈر ہو کر کرے گا تو یہ ہو گا اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا.چیف جسٹس قاضی فیض عیسی
میاں محمد ندیم
منگل 7 مئی 2024
17:13

(جاری ہے)
نظام بنانا ہو گاجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں گذشتہ سماعت پر پوچھا گیا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں، مداخلت ہو ہی کیوں؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں 2018 مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے چھ ججز نے مشترکہ خط لکھا اور حتمی ذمے داری تو وفاقی حکومت کی ہے کسی مہذب معاشرے میں اب تک سزائیں دی جا چکی ہوتیں.
اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کر سکتا ہوں میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟عدالت نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت مزید دلائل کے لیے غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی آئندہ تاریخ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے. چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے لگام ہیں ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، جزا سزا کو بھی چھوڑیں صرف سچ بولیں سزا جزا تو عمل ہے چلتا رہے گا، یہاں پر ایک کمشنر تھے جنہوں جھوٹ بولا اور سارے میڈیا نے اسے پھلایا کسی نے کمشنر کے جھوٹ سے متعلق نہیں پوچھا تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ ’سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیے، لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی. سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تعجب اس بات پر ہے کہ اتنے سارے وکیل ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں، ہر کوئی اپنی بات کرنا چاہتا ہے ہم نے جمہوریت کو فروغ دیا ہے آپ اپنے منتخب نمائندوں سے اختلاف کر سکتے ہیں جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اس موقع پر کہا کہ بہتر ہوتا کہ پاکستان بار کونسل کے ممبر چھ وکلا الگ سے درخواست دینے کی بجائے پاکستان بار کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی بات کرتے اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے جبکہ ریاضت علی وکیل پاکستان بار کونسل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے. جسٹس اطہر من اللہ نے چھ ججوں کی خط پر گذشتہ سماعت سے متعلق حکم نامے میں اپنا اضافی نوٹ عدالت میں بیٹھے بیٹھے اپنے ہاتھ سے لکھا اور دستخط کیے اٹارنی جنرل کو یہ تحریر پڑھنے میں مشکل ہوئی تو انہوں نے خود ہی نوٹ پڑھ دیا ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں سنگین حکومتی مداخلت پر وفاقی کو جواب دینا ہے عدلیہ کی آزادی پر ان سنگین حملوں کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا ان واقعات پر کارروائی حتمی طور پر وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے ہائی کورٹس نے واضح کر دیا کہ ایسے واقعات اب بھی جاری ہیں. شہزاد شوکت وائس چیئرمین سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت سے کہا کہ جب آپ براہ راست نشریات میں کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ مداخلت پر خاموش رہی تو اس سے عوام میں اچھا پیغام نہیں جاتا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مداخلت پر سزاﺅں کا قانون لانے کی سفارش کرتی ہے، اس معاملے سے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے وکیل پاکستان بار کونسل ریاست علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے لگتا ہے پاکستان بار نے اپنی تجاویز ہائی کورٹس کے جوابات کو مدنظر رکھ کر نہیں تیار کیں ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا، 2018 اور 2019 میں ہائی کورٹ کے آزاد ججز کے لیے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی . جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت ہو رہی ہے مداخلت کا معاملہ چھ ججوں کے خط سے آگے بڑھ چکا ہے گذشتہ سماعت میں ہائی کورٹس نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرائے تھے جبکہ عدالت نے تمام صوبائی بار ایسوسی ایشنز سے بھی تجاویز طلب کی تھیں گذشتہ سماعت میں بینچ میں شامل جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ ملک میں تین ایجنسیاں ہیں انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کس قانون کے تحت بنی، ہمیں آئندہ سماعت پر بتائیں یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں. عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر وفاقی و صوبائی وکلا بار ایسوسی ایشنز نے بھی فریق بننے کے لیے متفرق درخواستیں دائر کر رکھی ہیںعدلیہ میں مبینہ مداخلت کیس میں کراچی بار نے تجاویز سپریم کورٹ میں جمع کرا دیںتجاویز میں کہا گیا کہ ججز کو پابند بنایا جائے کہ مداخلت کی ہر کوشش سے سات دن میں مجاز اتھارٹی کو آگاہ کریں، مجاز اتھارٹی کو بھی پابند کیا جائے کہ رپورٹ کرنے والے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تجاویز میں کہا گیا کہ عدم تحفظ کے باعث بہت سے جج ایسے واقعات سے مجاز حکام کو آگاہ ہی نہیں کرتے قریبی رشتہ دوریوں کے علاوہ ججز کو سرکاری حکام اور انٹیلی جنس نمائندوں کیساتھ ملنے سے اجتناب کرنا چاہیے اگر سرکاری کام کے لیے حساس اداروں کے افسران سے ملنا ضروری ہو تو مجاز حکام کو آگاہ کیا جائے. بار کونسل کی جانب سے کہا گیا کہ مداخلت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے والے ججز کی خلاف کارروائی کی جائے شہریوں کی جاسوسی اور انٹلی جنس رپورٹس کی تیاری غیرقانونی ہے، حکومت کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے سے قانون سازی کی ہدایت کی جائے سپریم کورٹ چھ ججز کے خط کی آزادانہ انکوائری کرائے، عدالت ذمہ داران کا تعین کرکے سخت کارروائی کا حکم دے . اسلام آباد ہائی کورٹ جس نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا مدعا اٹھایا اور جس کے بعد سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تجاویز سپریم کورٹ کو بھجوائیں اس نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ من پسند عدالتی فیصلوں کے حصول کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ ہائی کورٹس پر بھی کیا جانا چاہیے جس سے بینچ سازی اور مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کئے جانے کے اختیارات کا غلط استعمال روکا جا سکے اس کے علاوہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی معاملے کا حل نہیں نامناسب مداخلت کی شکایات پر پارلیمانی کمیٹی متبادل فورم کے طور پر کارروائی کر سکتی ہے. لاہور ہائی کورٹ نے اپنے جواب میں کہا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت ایک کھلا راز ہے اور ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ مداخلت روکنے کے لیے کیے گئے فیصلے بے اثر ثابت ہوئے اس لیے سپریم کورٹ کو ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے انتظامیہ اور اس کی ایجنسیوں کی زیادہ مداخلت خصوصی عدالتوں مثلا انسداد دہشت گردی، اینٹی کرپشن اور احتساب عدالتوں میں دیکھی گئی ہے جہاں حکومت کی جانب سے ججوں کی تعیناتی اور ٹرانسفر کے ذریعے مداخلت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اس لیے خصوصی عدالتوں کے ججز کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس ہونا چاہیے ججوں کی ترقی میں خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر انحصار ان اداروں کی عدلیہ میں مداخلت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اس چیز پر نظرثانی کی ضرورت ہے. پشاور ہائی کورٹ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک کھلا راز ہے سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی، بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، ججز کو دھمکیاں ملنے کا معاملہ محکمہ انسداد دہشت گری کے ساتھ ساتھ اعلٰی سطح پر بھی اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے. اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا جس میں ججز نے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں لہذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے خط ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہ نمائی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہ نمائی کے لیے لکھ رہے ہیں درخواست ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکاناعدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے. حکومت کی جانب سے چھ ججز کے خط میں لگائے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کی معذرت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خط پر از خود نوٹس لے کر سماعت کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھالیکن پہلی سماعت کے بعد ہی سات رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کیس کی مزید سماعت سے معذرت کر لی تھی. جسٹس یحییٰ آفریدی نے ازخود کیس کے حوالے سے لکھا کہ 6 ججز نے اپنے خط میں کوڈ آف کنڈکٹ ترتیب دینے بات کی ہے، انتظامی معاملے پر عدالتی کارروائی سے منفی تاثر جائے گا سپریم کورٹ کو اس معاملے کو جوڈیشل سطح پر چلانے سے گریز کرنا چاہیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات موجود ہیں لیکن چیف جسٹس یا دیگر ججز نے اختیارات کو استعمال نہیں کیا، موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیے.مزید اہم خبریں
-
بھارت کی جانب سے حملے کا خدشہ، خیبرپختونخواہ کے تمام اضلاع میں سائرن سسٹم نصب
-
وفاقی وزیر احسن اقبال کی سیکریٹری جنرل ایگزیکٹو کونسل دبئی سے ملاقات،
-
وفاقی حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا اعلان
-
وفاقی حکومت کا موجودہ سکیورٹی صورتحال میں بڑا فیصلہ
-
وزیر اعظم سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ٹیلی فونک رابطہ
-
آل پارٹیز کانفرنس بلائیں ، عمران خان کو بھی اس میں مدعو کریں
-
امدادی کٹوتیوں سے لاکھوں ہلاکتیں واقع ہونے کا خدشہ، ٹام فلیچر
-
افغانستان کی 75 فیصد آبادی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم، یو این ڈی پی
-
جنگ کا آغاز ہماری طرف سے نہیں ہوگا لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور ردعمل دیں گے
-
مجھے اور میری اہلیہ کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر قید میں رکھا گیا ہے
-
عدالتوں کو مفلوج کر دیا گیا،کورٹ پیکنگ کے ذریعے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں
-
جرمنی: ایس پی ڈی نے اتحادی معاہدے کی منظوری دے دی، نئی حکومت کی راہ ہموار
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.