پیپلز پارٹی کا قومی اثاثوں کی نجکاری کے نام پر بندر بانٹ اور مزدوروں کے معاشی قتل عام پر اظہار تشویش

پیر 4 نومبر 2024 20:10

،ْ&لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 نومبر2024ء) پاکستان پیپلز پارٹی فیڈرل کونسل کے رکن و پاکستان ٹریڈ یونینز ایکشن کمیٹی کے مرکزی صدر عبدالقادرشاہین اور میڈیا کوارڈینیٹر پی پی پی جنوبی پنجاب محمد سلیم مغل نے مختلف اداروں کی ٹریڈ یونینز سے وابستہ رہنمائوں کے ہمراہ ملک کے قومی اثاثے پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کے نام پر وفاقی حکومت و شریف برادران کی بندر بانٹ اور مزدوروں کے معاشی قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے شریف فیملی کی پالیسیوں کا حصہ قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اسے کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا۔

پارٹی رہنمائوں نے کہا کہ نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کی کم از کم قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی جب کہ بولی دینے والی واحد کمپنی نے 50 فیصد حصص خریدنے کے لئے 10 ارب روپے کی بولی لگائی۔

(جاری ہے)

اس سے بڑا فراڈ کوئی ہو ہی نہیں سکتا، صرف روزویلٹ ہوٹل نیویارک کی قیمت 1 بلین ڈالر سے زیادہ ہے جو پاکستان روپے میں 2 کھرب 76 ارب 50 کروڑ ہے، روزویلٹ ہوٹل پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی ای) کی ملکیت ہے۔

جیسا کہ قومی کیریئر کے بیمار مالیات کے بارے میں بات چیت جاری ہے، ایک سوال جو ہمیشہ پوچھا جائے گا روزویلٹ ہوٹل کی قیمت کتنی ہے اور کیا اسے فروخت کرنے سے پی آئی اے کو مدد ملے گی لیکن پہلے تاریخ کا تھوڑا سا علم درکار ہے۔ روز ویلٹ ہوٹل 1924ء میں مکمل ہوا تھا اور اس کا نام سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کے اعزاز میں رکھا گیا ہے جو پہلے نیویارک ریاست کے گورنر رہ چکے ہیں۔

اس میں 52 سوئٹ سمیت 1015 کمرے ہیں۔ مین ہٹن میں دستیاب سب سے پرتعیش سوئٹ میں سے کچھ ہیں۔ ہوٹل کا شاندار مقام ہے، گرینڈ سینٹرل ٹرمینل سے ملحق، نیویارک کے دو بڑے ریلوے سٹیشنوں میں سے ایک اور امریکہ کے سب سے بڑے کاروباری ضلع کے عین وسط میں۔ انہوں نے کہا کہ 1979 میں، پی آئی اے نے اپنے ذیلی ادارے پی آئی اے انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے ذریعے ہوٹل کو 20 سال کی لیز پر لیز کی مدت کے اختتام پر ایک مخصوص قیمت پر ہوٹل خریدنے کا اختیار دیا تھا۔

اس معاہدے میں سرمایہ کاروں میں سے ایک سعودی عرب کے شہزادہ فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود تھے۔ یہ ہوٹل انٹراسٹیٹ ہوٹلز اینڈ ریزورٹس کے انتظامی معاہدے کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو بروک فیلڈ اثاثہ جات کے انتظام کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو ایک کینیڈا کی سرمایہ کاری فرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1999 میں وزیراعظم نواز شریف کی دوسری انتظامیہ کے دوران حکومت نے خریداری کا اپنا اختیار استعمال کرنے کا انتخاب کیا اور شہزادہ فیصل کے ساتھ 36.5 ملین ڈالر میں ہوٹل خرید لیا۔

پچھلے مالکان نے عدالت میں ایک سال تک جاری رہنے والی لڑائی میں یہ دلیل دی کہ چونکہ اس وقت ہوٹل کی قیمت کم از کم $250 ملین تھی، اس لئے انہیں پہلے سے طے شدہ قیمت پر فروخت کرنے کا پابند نہیں ہونا چاہئے، نیویارک کی عدالتوں نے جون 2000 میں حکومت پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا حالانکہ پی آئی اے کو ہوٹل پر 23 ملین ڈالر کا رہن ادا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

روزویلٹ ہوٹل نے 1979ء سے 1999ء کے درمیان تقریباً ہر سال پی آئی اے کے لئے پیسے کھوئے تھے۔ حکومت نے 2005 میں سعودی شہزادے کا حصہ 40 ملین ڈالر میں خریدا۔ حکومت نے 2007 میں ہوٹل کو 1 بلین ڈالر میں فروخت کرنے کے لیے پیش کیا لیکن وہ اس معاہدے کو کبھی بند نہیں کر سکی جس کی بڑی وجہ اسلام آباد میں حکومت میں بیک وقت ہونے والی تبدیلی اور امریکی رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں گراوٹ تھی،2011 میں حکومت نے باقاعدہ طور پر ہوٹل کو مارکیٹ سے ہٹا دیا۔

پارٹی رہنمائوں نے کہا کہ والڈورف- آسٹوریا، دنیا کے سب سے مشہور ہوٹلوں میں سے ایک، کو حال ہی میں ہلٹن ہوٹلز نے انبانگ انشورنس گروپ۔ ایک چینی انشورنس کمپنی کو 1.95 بلین ڈالر میں فروخت کیا۔ مڈ ٹاؤن مین ہٹن میں دو دیگر ہوٹل- پارک لین ہوٹل اور لینگھم پلیس ففتھ ایونیو- حال ہی میں فی کمرہ $1 ملین سے زیادہ میں فروخت ہوئے۔ تاہم، بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2014 میں مین ہٹن میں فروخت ہونے والے ہوٹل کی اوسط قیمت $627,000 فی کمرہ تھی، روز ویلٹ، اپنے 1,015 کمروں کے ساتھ، 636 ملین ڈالر میں فروخت ہوگا۔

اگر یہ مڈ ٹاؤن مین ہٹن میں فروخت ہونے والے ہوٹلوں کی قیمتوں پر فروخت کرتا ہے، جو اس کا حقیقی موازنہ ہے، 2015 کی مارکیٹ ویڈیو کے مطابق تو یہ انٹرپرائز ویلیو میں $1 بلین اور $1.4 بلین کے درمیان فروخت ہوگا۔ انہوں نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا کہ شہباز شریف حکومت کو اس کی آفر صرف 10 ارب کی آئی ہے یہ عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق ہے اس طرح ہے جس طرح 1991 میں نواز شریف حکومت میاں منشا نشاط گروپ کو مسلم کمرشل بینک 2.42 ارب میں فروخت کیا تھا- اس کی صرف ایک بلڈنگ کی قیمت اس سے زیادہ تھی -1991 میں ایم سی بی کی پورے پاکستان میں 1007 برانچیں تھی -پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز: 4 جولائی 2020 کو بیرون ملک پی آئی اے کی چھ ارب مالیت کی جائیدادیں، یہ جائیدادیں 1977 اور 1986 کے درمیان زیادہ تر رہائشی مقاصد کے لیے خریدی گئی تھیں لیکن طویل عرصے سے رہائشی یا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کی گئیں۔

ان 55 Saxonwood Roads میں سے پہلی Scarsdale، نیویارک، ریاستہائے متحدہ میں ہے، جسے 1979 میں $170,000 میں خریدا گیا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جی ایم کی رہائش گاہ ہے، یہ پراپرٹی 19,200 مربع فٹ کے رقبے پر محیط ہے۔ اسی طرح ایمسٹرڈیم، نیدرلینڈز میں پی آئی اے کی تین جائیدادیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ یہ 275 مربع میٹر کے رقبے پر محیط ہے جو 1986 میں 794,057 fl کی لاگت سے خریدا گیا تھا [یہ 17, Leidsestraat, 1017 NT میں واقع ہے۔

ایمسٹرڈیم میں پی آئی اے کی دوسری پراپرٹی کنٹری منیجر کی رہائش کے لیے 449,335 fl کی لاگت سے خریدی گئی۔ 1978 میں خریدا گیا ڈھانچہ ایک علاقے پر محیط ہے اور 109 Abcoude Koningsvaren پر واقع ہے۔ شہر میں ایک اور پراپرٹی اکاؤنٹس منیجر کی رہائش گاہ تھی۔ 1985 میں 141,523 fl میں خریدا گیا اور 95 مربع میٹر کے رقبے پر محیط ہے، اس کا پتہ APT 835، Van Nijenrodeweg تھی۔ پارٹی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ہمارے قومی پرچم بردار کی بھی اسی طرح کی جائیداد ممبئی، ہندوستان ٹ*میں ہے۔

اسے رہائشی مقاصد کے لیے خریدا گیا تھا اور فی الحال ممبئی ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔ دستاویزات کے مطابق یہ پراپرٹی 1977 میں خریدی گئی تھی جس کا سائز 1,730 مربع فٹ ہے جس کی قیمت 282,910 بھارتی روپے تھی۔ یہ اپارٹمنٹ APT نمبر 32، Jolly Makers Apartments اکاؤنٹس مینیجر کی رہائش گاہ کے لیے تھا۔ آخر میں، چھٹی جائیداد، اس بار تاشقند (ازبکستان) میں، 1995 میں ایئر لائن کے سرکاری استعمال کے لیے خریدی گئی تھی۔

اس کا سائز 243 مربع میٹر ہے اور اسے $57,580 کی لاگت سے خریدا گیا کہ یہ جائیدادیں 70 اور 80 کی دہائی میں پوش مقامات پر خریدی گئی تھیں جن کی قیمتیں اب تک آسمان کو چھو چکی ہیں۔ عبدالقادرشاہین کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ نجکاری کے عمل کو تیز کرنے میں معاشی مفادات اور مزدوروں کے حقوق کے درمیان توازن برقرار رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے، ماضی میں بھی نجکاری کے عمل میں مزدوروں کے روزگار کو متاثر کرنے اور قومی اثاثوں کے فروخت پر شفافیت کی کمی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، جو عوام میں عدم اعتماد کا سبب بنتے ہیں۔

پارٹی رہنماوں کا مزید کہنا تھا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نجکاری کے عمل کو شفاف بنائے، اس میں مزدور یونینز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے اور ان کے تحفظات کو دور کرئے، مزدوروں کے روزگار کے تحفظ اور ادارئے کی بہتری کے لیے جامع حکمت عملی اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے، بصورت دیگر نجکاری کے ان اقدامات سے ملک میں مزید بے روزگاری بدامنی سماجی و معاشی عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے، اور ملک اس چیز کا کسی بھی صورت متحمل نہیں ہوسکتا اور کسی ایسے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائیگا جو بند کمروں میں بیٹھ کر فرد واحد کی خوشنودی اور زاتی مفادات کی خاطر ہو، اگر کسی بھی قسم کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا تو پھر تمام تر حالات کی ذمہ دار خود وفاقی حکومت اور شریف برادران پر عائد ہوگی۔