اپری کے زیراہتمام "انتظامی ڈویژنز کو نئے صوبے بنانے کے امکانات" کے موضوع پر گول میز کانفرنس کا انعقاد

جمعرات 20 فروری 2025 22:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 فروری2025ء) مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر گورننس اصلاحات کی اہمیت کو اجاگر کر تے ہوئے کہا ہے کہ انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اختیارات کی منتقلی اور مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (اپری) کے زیراہتمام "انتظامی ڈویژنز کو نئے صوبے بنانے کے امکانات" کے موضوع پر ایک گول میز کانفرنس میں کیا ۔

اس کانفرنس میں ملک کے نامور ماہرین، سابق وزراء، بیوروکریٹس، سفارتکار اور میڈیا سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین نے پاکستان میں انتظامی ڈھانچے کی بہتری، گورننس کے مسائل، انتظامی یونٹس اور قومی یکجہتی پر اس کے اثرات پر تفصیلی گفتگو کی۔

(جاری ہے)

صدر آئی پی آر آئی ایمبیسڈر ڈاکٹر رضا محمد نے کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی موجودہ انتظامی تقسیم اور گورننس سسٹم کو مؤثر بنانے کے لئے نئے ڈویژنز اور ممکنہ نئے صوبوں کے قیام پر ایک سنجیدہ مکالمہ ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بحث کو محض سیاسی نعرے بازی سے ہٹ کر ایک سائنسی، عملی اور آئینی نقطۂ نظر سے دیکھنا ہوگا تاکہ یہ فیصلہ قومی یکجہتی، عوامی فلاح اور بہتر گورننس کی بنیاد پر کیا جا سکے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ماڈلز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی گورننس کو زیادہ مؤثر بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

سابق سفیر محمد حسن نے گلگت بلتستان کے انتظامی و آئینی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انتظامی ڈھانچہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی مثالوں کو دیکھیں تو ایران، بھارت، نائیجیریا اور ترکی نے نئے صوبے اور ریاستیں بنا کر گورننس کو بہتر کیا ہے جبکہ امریکہ، کینیڈا، میکسیکو اور برازیل نے اپنے موجودہ یونٹس کو مؤثر بنانے پر توجہ دی ہے۔

2018 میں حکومت نے ایک نیا گورننس آرڈر جاری کیا اور 2019 میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کے لئے اقدامات کرنے کی ہدایت کی جس پر عملی پیشرفت کی ضرورت ہے۔ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نئے انتظامی یونٹس کی بحث میں زیادہ زور سروس ڈیلیوری پر دیا جا رہا ہے جبکہ قومی یکجہتی اور اس کے سیاسی اثرات کو زیادہ زیرِ بحث نہیں لایا جا رہا، ہمیں ان دونوں پہلوؤں کو متوازن انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں ضلعی اور انتظامی تقسیم میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر اضلاع کی تعداد 35 سے بڑھ کر 41 ہو چکی ہے، جبکہ ڈویژنز کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں "سروس ڈیلیوری" کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انفراسٹرکچر تو تعمیر کر لیا جاتا ہے لیکن اس کے لئے درکار ریونیو اور فنڈنگ موجود نہیں ہوتی۔

بنیادی تعلیمی ادارے، ہسپتال اور بی ایچ یوز تو بنائے گئے لیکن ان کے لئے ضروری بجٹ، سٹاف اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں نے ترقیاتی بجٹ پر بہت زور دیا لیکن ریگولر اخراجات جیسے اساتذہ اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں، بجلی کے بل اور دیگر انتظامی امور کے لئے مناسب فنڈز مختص نہیں کئے گئے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی سرکاری عمارتیں خالی کھڑی رہ گئیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ترقیاتی بجٹ اور گورننس کے معاملات میں عالمی ادارے (ڈونرز)بھی شامل رہے ہیں جنہوں نے ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی لیکن ان منصوبوں کے لیے طویل مدتی اخراجات کا کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے کئی منصوبے غیر فعال ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں اپنی گورننس اور انتظامی تقسیم کو بہتر بنانا ہے، تو محض نئے انتظامی یونٹس بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی خود مختاری دینا ہوگی۔

صرف اسی طریقے سے ہم بہتر گورننس فراہم کر سکتے ہیں۔ سی ای او دنیا ٹی وی نوید کاشف نے میڈیا کے نقطہ نظر سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو صحت، تعلیم ،غذائی قلت اور پانی کے بحران جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات نہیں کریں گے تو یہ مسائل مزید گھمبیر ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں نئے صوبوں کی بحث کو زیادہ تر سیاسی نعرے بازی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اس کے عملی، قانونی اور انتظامی پہلوؤں کو کم اجاگر کیا جاتا ہے۔

نئے صوبوں کے قیام میں اصل مسئلہ وسائل کی تقسیم اور سیاسی مفادات کا ہوتا ہے جس پر کھل کر بات ہونی چاہئے۔ پاکستان میں میڈیا کا کردار محض خبر دینے کا نہیں بلکہ عوام کو بہتر گورننس اور آئینی اصلاحات کے بارے میں آگاہ کرنے کا بھی ہے۔عوامی رائے کو درست سمت میں لے جانے کا کام کرنا چاہئے۔ بہتر گورننس کے لئے میڈیا اور حکومتی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پالیسی سازی میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک نے مقامی حکومتوں کو مضبوط کر کے بہتر گورننس حاصل کی ہے، پاکستان کو بھی اس ماڈل پر غور کرنا چاہئے۔ سابق وفاقی سیکرٹری اشتیاق علی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں انتظامی اصلاحات کے بغیر نئے صوبوں کا قیام محض ایک سیاسی نعرہ رہ جائے گا، ہمیں گورننس کی اصلاحات پر توجہ دینی چاہئے ۔اگر انتظامی یونٹس بڑھائے جائیں تو کیا ان کے مالی وسائل موجود ہیں؟ یہ سوال پہلے حل ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر گورننس کے نظام کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔پاکستان کو ایک بہتر مقامی حکومتوں کا ماڈل اپنانا ہوگا، جو نئے انتظامی یونٹس کے بجائے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بنائے۔شکیل درانی (ایگزیکٹو ڈائریکٹر SOPREST) نے کہا کہ انتظامی ڈھانچے کی بہتری کے لئے ہمیں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ہوگا۔ پاکستان میں کئی ادارے متوازی کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔

نئے صوبوں کی بجائے ضلعی اور تحصیلی سطح پر اصلاحات کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم دنیا کے کامیاب ماڈلز کو دیکھیں تو بہتر گورننس کا راز مضبوط مقامی حکومتوں میں ہے۔سابق گورنر بلوچستان اویس غنی نے بلوچستان کے تناظر میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کہی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مقامی حکومتوں کو زیادہ اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔

مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنائے بغیر کوئی بھی انتظامی اصلاح کامیاب نہیں ہو سکتی۔ نئے صوبوں کے قیام کے بجائے اختیارات کی منتقلی پر توجہ دینی چاہئے، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر گورننس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بہتر گورننس کے لئے ڈیجیٹلائزیشن اور ادارہ جاتی ریفارمز پر زور دینا ہوگا۔سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے بلوچستان میں ترقیاتی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ترقی کے عمل کو عوام کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی انتظامی اصلاح مکمل نہیں ہو سکتی۔ مقامی حکومتوں کو خواتین اور نوجوانوں کی شرکت یقینی بنانی چاہئے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر علاقے کی مقامی ثقافت اور ضروریات کے مطابق پالیسی مرتب کرے۔مرتضیٰ سولنگی نے اس اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اتفاق رائے کا فقدان ہے۔مقامی حکومتوں کو مستحکم کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنی مرضی کے مطابق تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جس سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔