اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 مئی 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کے نامور معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ دو ایٹمی ملکوں میں جنگ کی صورتحال بے قابو ہوگئی تو نقصانات کا اندازہ اعدادوشمار میں لگانا بہت مشکل ہوگا۔ انہوں نے اپیل کی کہ بھارت اور پاکستان اپنے اپنے عوام کی بہتری کے لیے ترقی کو روک دینے والے بھاری جنگی اخراجات سے گریز کرتے ہوئے پرامن طریقے سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
معاشی نقصان کا حتمی اندازہ ممکن نہیں
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ جنگ کی معاشی تباہ کاریوں کا پیشگی اندازہ لگانا آسان نہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ممکنہ پاک بھارت جنگ کیسی ہوگی، کتنے بڑے اسکیل پر لڑی جائے گی، کتنے دن جاری رہے گی اور اس کے نتیجے میں کتنا انفراسٹرکچر تباہ ہو گا۔
(جاری ہے)
یومیہ جنگی اخرجات کا تخمینہ
ایک اور اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم نے تفصیلی حساب کتاب لگا کر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر پاک بھارت جنگ لگی تو اس میں بھارت کے روزانہ چھ سو پچاس ملین ڈالر خرچ ہوں گے اور پاکستان کا روزانہ کا جنگی خرچہ دو سو پچاس ملین ڈالر کے قریب ہوگا۔ ان کے مطابق براہ راست فوجی اخراجات میں فوجیوں کی تعیناتی، فضائیہ کی پروازیں، بحری کارروائیاں، گولہ بارود اور توپ خانہ،خوراک اور ایندھن سمیت بہت سے دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔
‘‘ جنگ سے ہونے والے مالی نقصانات میں براہ راست فوجی اخراجات کے علاوہ وسیع پیمانے پر ہونے والا معاشی نقصان ، اور طویل مدتی بحالی کابوجھ بھی شامل ہوں گا۔‘‘ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس 14 لاکھ فعال فوجی اہلکار موجود ہیں۔ اگر ان میں سے نصف یعنی تقریباً 7 لاکھ فوجی تعینات کیے جائیں، تو روزانہ کی اجرت کا تخمینہ 35 ملین ڈالر ہوگا، جبکہ خوراک اور ایندھن کے لیے اضافی 20 ملین ڈالر درکار ہوں گے۔
مزید 5 لاکھ ریزرو اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی روزانہ تقریباً 15 ملین ڈالر کا اضافہ کرے گی، جس سے اس مد میں روزانہ کے کُل اخراجات تقریباً 70 ملین ڈالر ہو جائیں گے۔ دوسری طرف پاکستان کے 650,000 فعال فوجی اہلکاروں میں سے 50 فیصد کی تعیناتی کا خرچ 15 ملین ڈالر ہوگا، جبکہ خوراک اور ایندھن کے لیے روزانہ 10 ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ 200,000 ریزرو فوجیوں کی تعیناتی روزانہ مزید 5 ملین ڈالر کا اضافہ کرے گی۔''ایک جنگی جہاز کی ایک پرواز کی لاگت پچاس ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ ایک میزائل کی قیمت تقریباً دو سے تین ملین ڈالر اور صرف ایک بارودی گولے کی قیمت ایک ہزار ڈالر ہے۔‘‘کوئی فاتح نہیں ہوگا
ڈاکٹر قیصر بنگالی بتاتے ہیں کہ یکم جولائی انیس سو پینسٹھ میں پاکستان نے تیسرا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا لیکن ستمبر میں پاک بھارت جنگ لگ گئی اور سارے فنڈز جنگ کی نذر ہو گئے۔
ان کے مطابق برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بھارت کو آزاد کرنا پڑا اور وہ ابھی تک اس جنگ کے اثرات سے پوری طرح نہیں نکل پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے عام آدمی زیادہ متاثر ہوتا ہے جس کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کا اصل حریف چین ہے اور پاک بھارت جنگ کی صورت میں بھارت کی چین کے خلاف لڑنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ '' پاک بھارت جنگ اگر لگی تو اس میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوگا ۔جو ملک بظاہر جنگ جیت بھی جاتا ہے اس کو بھی اس کی بھاری مالی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ جنگ پر اٹھنے والے اخراجات دراصل وہ پیسے ہوتے ہیں جو ہسپتالوں، اسکولوں اور سڑکوں کی تعمیر یا دیگر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونا تھے۔ ‘‘ایک اور اقتصادی ماہر علی توقیر شیخ کا یہ کہنا ہے کہ ایک روایتی جنگ بھی ناقابل تصور تباہی کا سبب بنے گی۔
عشروں کی ترقی کو مٹا دے گی، اور کروڑوں افراد کو غربت اورماحولیاتیکمزوریوں کے دلدل میں دھکیل دے گی۔ ان کے مطابق آج اگر مکمل جنگ چھڑ جائے تو اس کے اثرات کہیں زیادہ تباہ کن ہوں گے۔ انہوں نے 'فارن افیئرز فورم' کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت کے لیے وسیع تر اقتصادی نقصانات 17.8 ارب ڈالر تک جا سکتے ہیں دوسری جانب، پاکستان کی نازک معیشت پہلے ہی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف پر انحصار کا شکار ہے۔جنگ مہنگائی میں شدید اضافہ اور ضروری اشیاء کی قلت کا سبب بن سکتی ہے۔ان کے مطابق یہ تنازع ماحولیاتی نظاموں پر بھی شدید تباہی لا سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ، جس کی بھارت نے حال ہی میں دھمکی دی ہے ، ہماری زرعی معیشت کے لیے مہلک ہو گی۔
جنگ سے ہونے والے نقصان کے یہ اندازے تو محض مالیاتی امور سے متعلق ہیں۔
جنگیں جو انسانی زندگیاں لے جاتی ہیں اور جو معاشرتی دکھ چھوڑ جاتی ہیں اس کا تو تصور ہی محال ہے اس لیے ڈاکٹر قیصر بتاتے ہیں کہ پہلگام واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات پاکستان کے مطالبے کے مطابق اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروائی جانی چاہیے اور اس معاملے کو مذاکرات سے سلجھانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر فرخ کو لگتا ہے کہ حکومتیں جنگی ماحول پیدا کرکے اپنی دھمکیاں صرف اپنے لوگوں کو سنا رہی ہیں ان کے الفاظ میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت میں بہار کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ادارت، کشور مصطفیٰ