سپریم کورٹ ،فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل ،فیصلہ محفوظ

جناح ہائوس حملے میں غفلت پر کور کمانڈر سمیت 3افسران بغیر پنشن و مراعات ریٹائر کئے گئے، اٹارنی جنرل 14افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14افسران کو آگے ترقی نہیں ملے گی، منصور عثمان اعوان

منگل 6 مئی 2025 03:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 مئی2025ء)سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔پیر کو ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ 9مئی کے دن 3بجے لیکر شام سات بجے تک چار گھنٹوں میں 39فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے،23فوجی تنصیبات پر پنجاب میں، 8 خیبرپختونخوا میں جبکہ سندھ میں ایک فوجی تنصیب پر حملہ ہوا، جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر لاہور، میانوالی ایئر فورس، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی میں آئی ایس آئی دفاتر پر حملے ہوئے، نو مئی کا پورا واقعہ منظم تیاری کیساتھ کیا گیا۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پانچ بج کر چالیس منٹ پر شام کو کور کمانڈر لاہور پر حملہ ہوا، شام پانچ چالیس سے لیکر 9بجے تک لاہور کور غیر فعال رہی، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو نو مئی کو ہوا، راولپنڈی میں ایک سابق وزیراعظم کو 2007میں قتل کیا گیا۔انہوں نے مو قف اپنایا جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان تین ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی نو مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ 9مئی کے جرم سے کسی کو انکار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، تین اعلی افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 14افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14افسران کو آگے ترقی نہیں ملے گی، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی نو مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آآرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کیساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مقف اپنایا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے والے افسران کیخلاف کارروائی کی گئی۔جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی خودسوزیاں کیں، کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا جناح ہائوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاوں گا کیسے ہوا تھا۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ مختصر فیصلہ رواں ہفتے ہی سنایا جائے گا۔