Live Updates

پاک بھارت جنگ: نواز شریف خاموش کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 8 مئی 2025 20:20

پاک بھارت جنگ: نواز شریف خاموش کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مئی 2025ء) پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ حالیہ تنازعے میں اب تک 31 پاکستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ لاہور میں بھارتی ڈرون حملوں میں چار فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ اس نازک صورتحال میں پاکستان کے سیاسی حلقوں اور عوام کی نظریں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پر مرکوز ہیں، جو اس بحران کے دوران غیر معمولی طور پر خاموش ہیں۔

لاہور کے شہری، جہاں نواز شریف مقیم ہیں، ان کی طرف سے کسی واضح بیان یا کردار کے منتظر ہیں لیکن نواز شریف کی پراسرار خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

نواز شریف کی خاموشی کی وجوہات

سینئر تجزیہ کار ارشاد احمد عارف نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف جیسے تجربہ کار سیاستدان کی خاموشی عوام میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

ان کے بقول، ''یا تو نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے، یا پھر وہ سیاست سے مکمل کنارہ کشی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘‘

عارف نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اپنے لیڈر نواز شریف کے اس رویے کو ثالثی کی خواہش سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا نواز شریف امریکہ، چین یا سعودی عرب ہیں، جو پاک بھارت تنازع میں ثالثی کر سکتے ہیں؟

نواز شریف کو کیا کرنا چاہیے؟

ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ یہ وقت پاک فوج اور قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔

نواز شریف کو عوام اور اپنی پارٹی کو متحرک کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت کرنا چاہیے، ''انہیں عالمی رہنماؤں سے رابطے کر کے بھارت کی جانب سے شہریوں پر حملوں کی حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر، نواز شریف کو مودی کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ خطے کے امن کو خطرے میں نہ ڈالیں۔‘‘

ارشاد عارف نے سن 2015 کے اس واقعے کا حوالہ دیا، جب مودی کابل سے دہلی جاتے ہوئے لاہور میں نواز شریف کے گھر رکنے آئے تھے اور شریف خاندان کی ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر جیل میں قید ایک سیاسی رہنما (عمران خان) اپنے اختلافات بھلا کر قوم کے ساتھ یکجہتی دکھا سکتا ہے، تو نواز شریف کی خاموشی کی کیا مجبوری ہے؟

کیا کاروباری مفادات رکاوٹ ہیں؟

شریف خاندان کے بھارت کے ساتھ مبینہ کاروباری تعلقات پر سوال اٹھاتے ہوئے عارف نے کہا کہ پاکستان نے نواز شریف کو تین بار وزیر اعظم، ان کے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم اور بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنایا۔

ان کے مطابق، شریف خاندان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن نواز شریف کو کسی بھی مجبوری کو بالائے طاق رکھ کر قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور بھارتی اقدامات کی مذمت کرنا چاہیے۔

سیاسی قیمت کا خدشہ

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نواز شریف کی خاموشی انہیں سیاسی طور پر مہنگی پڑ سکتی ہے۔ عارف نے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے بیانات نواز شریف کی جگہ نہیں لے سکتے، ''نواز شریف کی اپنی حیثیت ہے۔

جب ملک کی بقا داؤ پر ہو، انہیں قومی پالیسی کی ترجمانی کے لیے خود سامنے آنا چاہیے۔‘‘

سیاسی سمجھوتہ یا نظریاتی اختلاف؟

تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شریف خاندان ہمیشہ سے بھارت کے حوالے سے نرمی کا رویہ رکھتا ہے۔ ان کے مطابق، نواز شریف کی خاموشی کی وجہ کوئی سیاسی سمجھوتہ ہو سکتا ہے، جو اب ان کے لیے زنجیر بنتا جا رہا ہے۔

سلمان عابد نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) وفاق میں اکثریتی حکومت رکھتی ہے، نواز شریف کی خاموشی سے لگتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے باوجود کھل کر بات نہیں کر سکتے۔

سینئر کالم نگار دردانہ نجم نے کہا کہ نواز شریف کا پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہمیشہ ایک واضح موقف رہا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ماضی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق، نواز شریف کے لیے اپنے دیرینہ موقف کے خلاف بولنا آسان نہیں۔

وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ موجودہ حکومت اور نواز شریف کے خیالات میں ہم آہنگی کا فقدان ہو سکتا ہے، جو ان کی طویل خاموشی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

خاموشی توڑنے کی کوشش؟

چند روز قبل نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کی تھی، لیکن اس وقت بھی وہ کوئی بیان جاری کرنے سے گریزاں رہے۔ تاہم، سوشل میڈیا پر بڑھتی تنقید کے بعد آج بروز جمعرات نواز شریف نے شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی اور کہا کہ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد

Live پاک بھارت کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات