Live Updates

صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا بیان سفارتی دھماکہ ہے، مسعود خا

پیر 12 مئی 2025 18:10

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2025ء) آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور ممتاز سفارت کار سردار مسعود خان نے کہا ہے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف مسلہ کشمیر پر ثالثی کرنے اور اس مسلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش سفارتی میدان میں ایک دھماکے سے کم نہیں جس کی گونج سب سے زیادہ دھلی میں سنائی دی ہے۔ ھندوستان ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ مسلہ کشمیر دو ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے اور اقوام متحدہ سمیت کسی تیسری طاقت کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اس مسلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں یا کسی تیسری طاقت کی ثالثی سے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ ہندوستان کا یہ موقف اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے اور نہ ہی بڑے ملکوں نے کبھی مانا لیکن نئی دھلی ہمیشہ اس موقف کو دہراتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کے حالیہ بیان کے تین حصے ہیں جس کے پہلے حصے میں سفارت کاری کا عندیہ ہے، دوسرے حصے میں جنوبی ایشیا کے انسانوں کے لئے صدر ٹرمپ کا درد ہے اور تیسرے حصے میں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھا کر اس خطے کے عوام کی معاشی تکالیف کو دور کرنے کا اشارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ھندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ طوالت اختیار کر جاتی تو اس کی وجہ سے لاکھوں انسان مارے جاتے لیکن امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کی فوری مداخلت سے یہ خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن جنگ بندی اور اس کے بعد مسائل کے حل کے لئے با مقصد اور نتیجہ خیز بات چیت کا انحصار بھارت کے رویے پر ہے۔ سابق صدر آزادکشمیر نے کہا 2019 میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات اور بعد ازاں کرونا وبا کی وجہ سے مسلہ کشمیر سرد خانے کی نظر ہوگیا تھا لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد عالمی طاقتوں خاص طور پر امریکی حکومت کی مداخلت سے مسلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سیاست کے ریڈار پر نمایاں ہوگیا ہے۔

سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکی صدر کے بیان کا پس منظر سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ بیان دس مئی کے روز پاکستان اور بھارت کی فوجوں میں جنگ اور اس جنگ میں پاکستان کی بری، فضائی اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں پاکستان کی برتری کے بعد آیا جسے دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ اس وقت دنیا میں یہ تجزیے ہورہے ہیں کہ جو ٹیکنالوجی پاکستان کی افواج نے ڈرونز، فائٹر طیاروں اور میزائلوں میں استعمال کی اس کا بھارت تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور یوں یہ ایک اعتبار سے دو ٹیکنالوجیز کا ٹکراؤ بھی تھا اور اس پس منظر میں امریکی صدر کی مداخلت پر ہم امریکی صدر اور امریکی حکومت کے شکر گزار جنہوں نے سفارت کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے دو متصادم ملکوں کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی طرف لایا۔

اس ضمن ہم امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے بھی شکر گزار جو پاک بھارت جنگ کے دوران مسلسل متحرک رہے۔ انہوں نے کہا کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ہم امریکی حکومت کی کوششوں کا شکریہ ادا کریں لیکن دوسری جانب دھلی میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار نہ صرف امریکی حکومت کا شکریہ ادا نہیں کر رہے بلکہ وہ سیز فائر اور امریکی صدر کی ثالثی کے بیان کو لیکر باہم لڑ جھگڑ رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں یہ جنگ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تھی اس میں تیسری طاقت کہاں سے آگئی۔

ہمارا یہ موقف ہے کہ اس میں امریکہ بھی تھا، سعودی عرب اور ترکی سمیت درجنوں ملک جنگ رکوانے کی کوشش کررہیتھے جنکی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔ صدر سردار مسعود نے کہا کہ وہ دیکھ رہے ہیں اس خطے کے انسانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایک نئے سفارتی باب کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سردار مسعود خان نے کہا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں امریکی ثالثی سے بھارت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کو پہلے برابری کی سطح پر برتاؤ کرنے کے کئی اشارے دیے ہیں۔

امریکہ نے اس سلسلے میں پاکستان اور ھندوستان سے یہ اتفاق کرایا ہے کہ نہ صرف جنگ بندی ہوگی بلکہ کچھ عرصے بعد کسی غیر جانبدار مقام پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات بھی ہوں گے جس میں تمام متنازعہ مسائل زیرِ بحث آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی ناپائیدار نظر آتی ہے کیونکہ بھارت کی فوج لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے کچھ علاقوں میں سیز فائر کی خلاف ورزی کرکے اس کا الزام پاکستان پر تھوپ رہی ہے۔

اس بات کا خدشہ موجود ہے ھندوستان بدعہدی کر سکتا کیونکہ بھارت نے مجبوری میں جنگ بندی کی کیونکہ اسے پاکستان کے ہاتھوں بہت بڑے نقصان کا خطرہ محسوس کر لیا تھا۔ بھارت نے جب دیکھا کہ اس کے درجنوں ائیر بیسز تباہ ہوچکے اور مذید تباہی سے بچنے کے لئے سیز فائر ہی ایک راستہ ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ خود بھارت نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ساتھ رابطہ کیا اور ان کی منت سماجت کرکے جنگ بند کرانے کی درخواست کی۔

مسلہ کشمیر کے حوالے سے تیسرے ملک کی ثالثی کے بارے میں پوچھے گئے مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ غیر جانبدار ممالک جیسے ناروے، سویڈن، ڈنمارک یا وہ خلیجی ریاستیں جن سے پاکستان اور بھارت کے مفادات جڑے ہیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس میں خود امریکہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد یوکرین کی جنگ بند کرانے کا اعلان کیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ وہاں صورتحال پیچیدہ ہے، غزہ میں بہتری لانے کی کوشش کی لیکن صدر ٹرمپ چونکہ اسرائیل کے حامی ہیں اسلئے انہیں وہ پہچان اور ساکھ نہیں مل سکی جس کے وہ متلاشی تھے لیکن ھندوستان اور پاکستان کے بارے میں وہ جانتے ہیں یہاں اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ جنگ جوہری جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے جس سے نہ صرف ہزاروں انسان لقمہ اجل بن سکتے ہیں بلکہ اس کے تابکاری اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوگی، اسلئے ہم سمجھتے ہیں امریکی مداخلت اور اس جنگ کی تباہ کاریوں سے انسانیت کو بچانا ان کی ذمہ داری بھی اور وہ متوقع ہولناک تباہ کاری سے دنیا کو بچا کر تاریخ میں امر بھی ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بھارت ایسی کسی بھی بین الاقوامی کوشش کو سبوتاژ کرے گا کیونکہ صدر ٹرمپ پہلے بھی 2019 میں ثالثی کی کوشش کرچکے جسے بھارت نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا پچھلے تیس بتیس سال میں یہ پہلا موقع ہے کسی امریکی صدر نے لفظ کشمیر اس کے حل طلب ہونے کے پس منظر میں ادا کیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور ان کے پیشرو صدر جو بائیڈن بھارت کے رویے سے بہت مایوس تھے۔

یوکرین کے معاملے میں بھارت دوہری پالیسی پر عمل پیرا تھا، وہ ایک طرف امریکہ کا اسٹرٹیجیک پارٹنر تھا اور دوسری جانب وہ روس سے سستا تیل خرید کر اسے دوسرے ملکوں میں مہنگے داموں بیچتا تھا، بھارت واشنگٹن کو یقین دلاتا تھا کہ وہ چین کے مقابلے میں کھڑا ہوگا لیکن اندرون خانہ وہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھا رہا تھا۔ سردار مسعود خان نے واضح کیا کہ پاک بھارت مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے بھارت اعتماد سازی اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لئے کیا اقدامات اٹھاتا ہے۔ ہماری نظر میں اعتماد سازی کے لئے پہلا قدم سندھ طاس معاہدہ کی بحالی وہ پہلا قدم ہوگا جس سے اندازہ ہوگا کہ بھارت بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنا چاھتا ہے یا نہیں۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات