Live Updates

اب عمران کا جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ، کیا کوئی اور ثبوت نہیں ملا؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 15 مئی 2025 19:40

اب عمران کا جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ، کیا کوئی اور ثبوت نہیں ملا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مئی 2025ء) تفصیلات کے مطابق، لاہور کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے بدھ کے روز استغاثہ کی تحریری درخواست پر پولیس کو عمران خان کے پولی گرافک (جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ) اور فوٹوگرامیٹک (چہرے اور آواز کے تجزیے) ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ٹیسٹ نو مئی کے فسادات سے متعلق بارہ مقدمات میں کیے جائیں گے۔

عدالت نے ہدایت دی ہے کہ یہ ٹیسٹ بارہ دن کے اندر مکمل کیے جائیں اور اس دوران استغاثہ کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے استغاثہ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پولیس نو مئی کے واقعات کے سات سو ستائیس دن بعد یہ ٹیسٹ کیوں کروانا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

وکیل نے دلائل دیے کہ سابق وزیر اعظم کو انیس مقدمات میں ضمانت پہلے ہی دی جا چکی ہے، اور جن بیانات کی بنیاد پر پولیس یہ ٹیسٹ کروانا چاہتی ہے، وہ پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ سے قانونی قرار دیے جا چکے ہیں۔

وکلاء برادری کا ماننا ہے کہ ایسے غیر معتبر اور غیر ضروری ٹیسٹ کروانے کی حالیہ اجازت سابق وزیر اعظم عمران خان کو رسوا کرنے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مقدمات میں اس نوعیت کے ٹیسٹ کروانے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''یہ ٹیسٹ نہ صرف غیر معتبر ہیں بلکہ ان کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے، اور دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں ایسے ٹیسٹ کروانے کا مطلب یہ ہے کہ استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں اور اب وہ مشینوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

‘‘

عمران خان کن مقدمات کی وجہ سے جیل میں ہیں؟ْ

اس وقت عمران خان جیل میں قید ہیں کیونکہ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ایک مقدمے میں چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسی کیس میں سات سال قید کی سزا دی گئی۔ یہ مقدمہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈز کی رقم اور عمران خان کے القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے متعلق ہے۔

اس کے علاوہ ان پر نو مئی کے فسادات کے دوران ریاستی اداروں پر حملوں کی سازش کا الزام بھی عائد ہے۔

اس سے قبل جنوری میں ان کے خلاف تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئی تھیں، جن کا تعلق ریاستی تحائف کی فروخت، ریاستی راز افشا کرنے اور غیر قانونی نکاح سے تھا، تاہم یہ تمام سزائیں یا تو کالعدم قرار دی جا چکی ہیں یا معطل کر دی گئی ہیں۔

اس وقت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے القادر ٹرسٹ کیس میں سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر عدالت نے آئندہ ہفتے سماعت مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس کے علاوہ عمران خان کے خلاف نو مئی کے واقعے میں سازش کے الزامات پر مبنی آٹھ مقدمات کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں ستائیس مئی کو ہونے جا رہی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کو القادر کیس اور نو مئی کے مقدمات میں ضمانت مل جاتی ہے، تو وہ جیل سے باہر آ سکتے ہیں اگر ریاست ان کے خلاف مزید مقدمات درج نہ کرے۔ نو مئی سے متعلق اکیس مقدمات میں پہلے ہی عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے۔

وکلاء کا مؤقف ہے کہ عدالت کی جانب سے عمران خان کا پولی گرافک (جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ) اور فوٹوگرامیٹک (چہرے اور آواز کا تجزیہ) کرانے کی اجازت دینا دراصل ان کی رہائی کو زیادہ سے زیادہ تاخیر کا شکار بنانے کی کوشش ہے، اور اس کے لیے ایسے غیر معتبر اور غیر روایتی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جن کی اس نوعیت کے مقدمات میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

کیا جھوٹ پکڑنے کے مشینی ٹیسٹ کی بنیاد پر سزائیں ہوتی ہیں؟

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا ہے کہ آج تک کسی ایک بھی شخص کو ایسے ٹیسٹوں کی بنیاد پر سزا نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ ٹیسٹ صرف ان مقدمات میں کیے جاتے ہیں جہاں کوئی ثبوت موجود نہ ہو اور صرف ایک ہی شخص دستیاب ہو جو کسی خاص صورتحال کی وضاحت کر سکتا ہو، یعنی وہی شخص جس پر الزام ہے۔

انہوں نے کہا، ''یہ ٹیسٹ آج بھی دنیا بھر میں بہت کم قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس نہ تو وہ مہارت ہے اور نہ ہی وہ جدید سہولیات اور آلات، جو ایسے ٹیسٹوں کے لیے درکار ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام باتیں غیر متعلقہ ہیں کیونکہ ان ٹیسٹوں کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مقصد ہے، سوائے اس کے کہ یہ انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک اور کوشش ہے۔

قانونی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نو مئی کے فسادات کے وقت عمران خان پہلے ہی گرفتار ہو چکے تھے اور حکومت کی تحویل میں تھے، اس لیے ان پر نو مئی کے فسادات کی سازش کا الزام بے معنی ہے۔

معروف قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے فیصلے صرف عمران خان کو رسوا کرنے اوراذیت پہنچانے کی ایک کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ ان کا کہنا تھا،''اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک منسوخی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے کیونکہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے لہذا ان کی منسوخی ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘

ادارت: کشور مصطفیٰ

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات