Live Updates

وفاقی حکومت نے کیپٹو پاور لیوی سے بجلی سستی کرنے کا پلان آئی ایم ایف کو شیئر کردیا

90پیسے بجلی سستی ہونے کا مطلب ہے حکومت کیپٹو پاورپلانٹس کو گیس پر عائدٹیکسوں میں90پیسے چھوٹ دے گی اور اس کا بوجھ دیگر صارفین کو اٹھانا پڑے گا.ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 19 مئی 2025 16:44

وفاقی حکومت نے کیپٹو پاور لیوی سے بجلی سستی کرنے کا پلان آئی ایم ایف ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 19 مئی ۔2025 )وفاقی حکومت نے کیپٹو پاور لیوی سے بجلی سستی کرنے کا پلان آئی ایم ایف کو شیئر کردیا ہے کیپٹو پاور لیوی سے پہلے مرحلے میں بجلی 90 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کا تخمینہ ہے، حکومت کو کیپٹو پاور لیوی بڑھنے پر بجلی مزید سستی ہونے کی توقع ہے.

(جاری ہے)

ڈان نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے کیپٹو پاور لیوی سےبجلی سستی کرنے کا منصوبہ آئی ایم ایف کو پیش کیا ہے جس کے تحت، کیپٹو پاور لیوی پہلے مرحلے میں 90 پیسے فی یونٹ کم کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے حکومت کو کیپٹو پاور لیوی بڑھنے پر بجلی مزید سستی ہونے کی توقع ہے آئی ایم ایف کے دباﺅ پر کیپٹو پاور پلانٹس پر 20 فیصد تک لیوی عائد کرنے آرڈیننس جاری کیاگیاتھا تاہم فوری طورپر 5فیصد لیوی کانفاذ کیاگیا وفاقی حکومت یکم فروری2025 سے کیپٹوپاورپلانٹس کے لیے ٹیرف بڑھاچکی ہے، کیپٹو پاور پلانٹس کا گیس ٹیرف 3 ہزار روپےسے بڑھا کر ساڑھے3 ہزار روپے کیا گیا تھا کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے ٹیرف بڑھانے کے بعد لیوی عائد کی گئی.

قومی گرڈ کے ذریعے بجلی کی مستحکم اور مستقل فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے بڑی صنعتوں کو کیپٹو پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دی تھی اور کیپٹو پاور یونٹس صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے لگائے گئے چھوٹے بجلی گھر ہوتے ہیں جو کہ گرڈ سے منسلک نہیں ہوتے اس وقت ملک میں11سو سے زیادہ کیپٹو پاورپلانٹس کام کررہے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں کو ذاتی پاور پلانٹس کے لیے سستی گیس اس لیے فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ صنعتیں چلتی رہیں مگر پچھلے کچھ سالوں سے ملک کا پیدواری شعبہ بری طرح سے زوال پذیرہے صنعتیں بند پڑی ہیں یا بہت محدودپیمانے پر کام کررہی ہیں ‘درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت مراعات یافتہ بڑے صنعت کاروں کو لیوی میں چھوٹ دے رہی ہے جس کا بوجھ چھوٹے کاروبار اور گھریلو صارفین اٹھاتے ہیں .

انہوں نے کہا کہ 90پیسے بجلی سستی ہونے کا مطلب ہے حکومت کیپٹو پاورپلانٹس کو گیس پر عائدٹیکسوں میں90پیسے چھوٹ دے گی جبکہ رواں سال کے آغازپر حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر کیپٹو پاورپلانٹس کو ریٹس کی بنیاد پر گیس کی فراہمی بند کرنے کا وعدہ کیا تھا جنوری کے آغاز پر شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے جنوری کے اختتام تک کی ڈیڈلائن میں لچک دکھائی ہے اس سے قبل حکومت نے جنوری2025کے آخر تک کیپٹوپاورپلانٹس کوگیس فراہمی منقطع کرنے کی تحریری یقین دہانی کروائی تھی.

رپورٹ کے مطابق ملک میں 1180کیپٹو پاور پلانٹس ہیں اور یہ پلانٹس یومیہ 15کروڑ مکعب فٹ سے زیادہ گیس لےکر بجلی بناتے ہیں‘حکومت نے آئی ایم ایف کے دباﺅ پر کیپٹو پاورپلانٹس پر 20 فیصد تک لیوی عائد کرنے آرڈیننس جاری کیا تھا تاہم بعد میں کیپٹوپاورپلانٹس پر پہلے مرحلے میں صرف 5فیصد لیوی کانفاذ کیاگیا اور لیوی کو اگست 2026 تک بتدریج بڑھا کر 20فیصد کرنے کا اعلان کیا گیا .

کیپٹوپاورپلانٹس حکومت سے 3 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں گیس خریدتے ہیںجبکہ گھریلو صارفین کو سردیو ں میں یہی گیس دن میں صرف16گھنٹوں تک فراہمی کے ساتھ ٹیکسوں سمیت ساڑھے9ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یومیں فراہم کی جاتی ہے‘ہوٹل‘ریسٹورنٹ اور دیگر چھوٹے کاروباری گیس کی مسلسل فراہمی نہ ہونے اور کمرشل ریٹ گھریلو صارفین سے بھی زیادہ ہونے کی وجہ سے ایل پی جی استعمال کرتے ہیں ایل پی جی پر حکومت نے بھاری ٹیکس عائد کررکھے ہیں ہمسایہ ملک بھارت میں گھریلو صارفین کے لیے ایل پی جی کی قیمت60روپے کلو‘افغانستان میں213روپے کلو جبکہ پاکستان میں ایل پی جی کی فی کلو قیمت250روپے سے لے کر300روپے کلو تک ہے .

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی رپورٹس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 3سال کے دوران155فیصد اضافہ ہو ہے اسی طرح گیس کی قیمتوں کے حوالے سے دسمبر2024میں ادارہ شماریات نے بتایا تھا کہ چند سالوں کے دوران گیس کی قیمتوں میں850فیصد تک اضافہ کیا گیا ‘تیل کی مصنوعات پر بھی حکومتی ٹیکس بھی ضرورت سے زیادہ ہیں یہ تمام عوامل مل کر عام شہریوں کی زندگیوں کو مشکل ترین بنارہے ہیں ‘ان تینوں شعبوں میں ٹیکسوں کی بھرمار سے ملک میں صنعت ‘زراعت اور دیگر کاروبار مفلوج ہوکررہ گئے ہیں ‘سولرپاور یا دیگر ذرائع ابھی تک عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہیں کیونکہ پچھلے پانچ سال میں تنخواہ دار طبقے میں بچت کا تصور ختم ہوچکا ہے ‘مزدور اور عام تنخواہ دارکی آمدن بدترین مہنگائی کی وجہ سے پندرہ سے بیس دن میں ختم ہوجاتی ہے اور باقی دس ‘بارہ دن وہ قرض لے کر گزارہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے .

انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے شروع کی گئی مختلف سکیموں سے شہری علاقوں میںسیاسی پارٹیوں کے سرکردہ عہدیدار اورکارکن ہی مستفید ہوپاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں ان کی تقسیم برادریوں اور ووٹ بنک کے حساب سے کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک ایسی اسکیمیں پاکستان میں عام شہریوں کی زندگیاں بدلنے میں ناکام رہی ہیں.
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات