مقبوضہ کشمیر ،بھارت نے کشمیریوں کے خلاف کریک ڈائو ن تیز کر دیا،کالے قانون کے تحت 5کشمیری گرفتار

منگل 3 جون 2025 16:20

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 جون2025ء) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں ایک بڑے کریک ڈائون کے دوران بھارتی پولیس نے سرینگر میں کم سے کم 5کشمیری نوجوانوں پر کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیاہے۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کشمیری نوجوانوں نعیم احمد خان، فیضان اختر بٹ، معراج الدین بٹ، عمر حمید شیخ اور صہیب شفیع کوسرینگر سے گرفتار کرکے جموں کی کٹھوعہ، اودھمپور اور کوٹ بھلوال جیلوں میں منتقل کردیا گیاہے۔

ایک او رکارروائی میں بھارتی پولیس نے سوپور میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت جماعت اسلامی کے رکن عبدالرزاق حجام کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔پولیس نے چھاپے کے دوران کتابیں،اہم دستاویزات ، موبائل اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیے۔

(جاری ہے)

یہ کارروائی اختلافی آوازوں کوجبر اً خاموش کرانے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرنے والوں کو دبانے کی بھارت کی مہم کا حصہ ہے۔

بھارتی پولیس نے آج ضلع کپواڑہ کے علاقے ہندواڑہ میں ایک کشمیری فاروق احمد ڈار کی جائیداد بھی ضبط کرلی۔ ادھر قابض انتظامیہ نے تین مسلمان سرکاری ملازمین کو آزادی پسند تنظیموں سے تعلق کے الزام پر برطرف کردیاہے۔ برطرف کیے گئے ملازمین میں پولیس کانسٹیبل ملک اشفاق نصیر، اسکول ٹیچر اعجاز احمد اور گورنمنٹ میڈیکل کالج کے جونیئر اسسٹنٹ وسیم احمد خان شامل ہیں ۔

اگست 2019 میں مودی حکومت کی طرف سے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد سے 75سے زائد کشمیری ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے سرینگر میں ایک بیان میں ان کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور ان کواپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے پرکشمیریوں کو اجتماعی سزا دینے کی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ قرار دیاہے۔ بیان میں اقوام متحدہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ متنازعہ علاقے میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کا نوٹس لے۔

ضلع کپواڑہ کے علاقے ہندواڑہ کے رہائشیوں نے مقبوضہ علاقے میں قابض انتظامیہ کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ خواتین سمیت مظاہرین نے کئی ماہ سے پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی مذمت کی۔ دریں اثنا حق اطلاعات کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محکمہ سیاحت نے قابض انتظامیہ کے اس دعوے کی کہ اگست 2019میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعدسیاحت کو بے حد فروغ ملا ہے ، قلعی کھول دی ہے ۔

انسانی حقوق کے کارکن ایم ایم شجاع کی طرف سے مودی حکومت کے 9کروڑ 47لاکھ سیاحوں کے وادی کشمیر کے دورے سے متعلق دعوے کے بارے میں سوال کے جواب میں انکشاف کیاگیاہے کہ اس تعداد کے صرف 10فیصد سیاحوں نے ہی وادی کشمیر کا دورہ کیاہے۔ مقامی انتظامیہ، بھارتی فوج اور غیر کشمیری کارکنوں نے اس تعداد کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہے،جس سے مقبوضہ علاقے کی صورتحال معمول پر آنے کے مودی حکومت کے دعوے بے نقاب ہوگئے۔