اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) پاکستان آئندہ مالی سال کے لیے اپنے سالانہ وفاقی بجٹ آج منگل کے روز پیش کر رہا ہے، جس میں معاشی شرح نمو کو رفتار دینے کی کوشش کی جائے گی، جبکہ گزشتہ ماہ بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد دفاعی اخراجات میں متوقع اضافے کے لیے وسائل تلاش کرنے کی بھی کوشش ہو گی۔
یہ بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے جب اسلام آباد کو اپنے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کے نظم و ضبط کے اندر رہتے ہوئے معیشت کو بحال کرنا ہے۔
امریکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور اس صورت میں واشنگٹن کی جانب سے نئے تجارتی محصولات کے نفاذ کی غیر یقینی صورتحال کا بھی اسے سامنا ہے۔پاکستان: رواں مالی سال اقتصادی شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کی توقع
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ممکنہ طور پر یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے 17.6 ٹریلین روپے (62.45 بلین ڈالر) کا بجٹ پیش کرے گی، جو رواں مالی سال کے بجٹ سے 6.7 فیصد کم ہے۔
(جاری ہے)
اطلاعات کے مطابق حکومت نے جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کے 4.8 فیصد کے مالیاتی خسارے کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ 2024-25 میں اس خسارے کا ہدف 5.9 فیصد تک تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس بار اپنے دفاعی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد اضافے کی توقع ہے، جو ممکنہ طور پر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیوں سے پورا کیا جائے گا۔
پاکستان کا تقریباً انیس ٹریلین کا بجٹ، عوام کے لیے بھی کچھ ہے؟
پاکستان نے اپنے پچھلے بجٹ میں دفاع کے لیے 2.1 ٹریلین پاکستانی روپے (7.45 بلین امریکی ڈالر) مختص کیے تھے، جس میں دو بلین ڈالر کے عسکری آلات اور دیگر اثاثے بھی شامل تھے۔
اس بجٹ میں فوجیوں کے پنشن کے لیے اضافی 563 بلین روپے (1.99 بلین ڈالر) مختص کیے گئے تھے، جن کا شمار سرکاری دفاعی بجٹ میں نہیں کیا جاتا ہے۔بھارت نے اپنے رواں سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 78.7 بلین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی تھی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 9.5 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں فوجیوں کی پینشن اور ہتھیاروں کے لیے 21 بلین ڈالر کی رقم بھی شامل تھی۔
بھارت نے بھی مئی میں پاکستان کے ساتھ تنازعے کے بعد دفاعی اخراجات میں اضافے کا اشارہ کیا ہے۔پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے 2025-26 میں 4.2 فیصد اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے معیشت کو مستحکم کیا ہے، جو حال ہی میں 2023 تک اپنے قرضوں کی ادائیگی کے خطرے سے دوچار تھی۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں 3.6 فیصد کے ابتدائی ہدف کے مقابلے میں، رواں مالی سال میں شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
خطے میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار بہت کم ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 2024 میں، جنوبی ایشیائی ممالک میں اوسطاً 5.8 فیصد کی شرح سے معیشتوں نے ترقی کی، جبکہ 2025 میں 6.0 فیصد کی شرح نمو کی توقع ہے۔
بلوچستان کی محرومیوں پر توجہ دیں گے، شہباز شریف
شرح سود میں کمی کافی نہیں
حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کمی کے بعد، قرض لینے کی لاگت میں تیزی سے کمی آنے کے سبب معیشت کی توسیع میں مدد ملنی چاہیے۔
لیکن ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ ایسی اصلاحات کے ہوتے ہوئے صرف مالیاتی پالیسی کا نفاذ کافی نہیں ہے، جو سرمایہ کاری پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کے روز کہا کہ وہ ماضی میں پاکستان کے عروج اور ٹوٹ پھوٹ کے چکر سے بچنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے جو میکرو اکنامک استحکام حاصل کیا ہے، ہم بالکل اسی پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔
اس بار ہم بہت واضح ہیں کہ ہمیں موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔"توقع ہے کہ بجٹ میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے، زراعت سے متعلق انکم ٹیکس کے قوانین کو نافذ کرنے اور صنعت کو دی جانے والی حکومتی رعایات کو کم کرنے کو ترجیح دی جائے گی، تاکہ گزشتہ موسم گرما میں دستخط کیے گئے آئی ایم ایف کے سات بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔
ٹیکس حکام کے مطابق سن 2024 میں صرف 1.3 فیصد آبادی نے انکم ٹیکس ادا کیا، جس میں زراعت اور بیشتر خوردہ شعبہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اصلاحات کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرے، جس میں زراعت، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانا شامل ہے۔
گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس ایس اینڈ پی کے سینیئر ماہر اقتصادیات احمد مبین کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی توقع ہے کہ 2025-26 کے لیے محصول کا ہدف حاصل نہیں ہو پائے گا۔
پاکستان مہنگائی میں کمی کا ہدف پورا کرے، آئی ایم ایف
مبین نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ "یہ کمی اس لیے رہے گی، کیونکہ زیادہ تر اعلان کردہ اقدامات کا نفاذ نہیں ہو پاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی عام طور پر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے، جو بامعنی ساختی اصلاحات چاہیں وہ بھی نہیں کی جاتی ہیں۔"
ص ز/ ج ا (روئٹرز)