اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جون2025ء) پی سی آئی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ چین کا پُرامن عروج ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک طاقت کا سرچشمہ ہے،اقتصادی و سیاسی طاقت کا عالمی توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے جو ایشیائی صدی کا آغاز ہے۔انہون نے اس بات کا اظہار پاکستان۔
چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے زیرِ اہتمام “فرینڈز آف سلک روڈ” کے تحت منعقدہ پاکستان-چین ڈائیلاگ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں نامورسیاسی رہنمائوں، سفارتکاروں، اراکینِ پارلیمنٹ، طلبہ اور سکالرز نے شرکت کی ۔ اس ڈائیلاگ کا موضوع’’پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تفہیم کو مضبوط بنانا اور ہمسایہ ممالک کے لیے مشترکہ مستقبل پر مبنی کمیونٹی کی تشکیل‘‘ تھا۔
(جاری ہے)
اس موقع پر مقررین نے ’آئرن برادرز‘ کی پائیدار شراکت داری کو سراہا، اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر مبنی کثیر القطبی نظام کی حمایت کی اور صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو امن، خوشحالی اور علاقائی روابط کے لیے ایک اہم محرک قرار دیا۔یہ ڈائیلاگ پاکستان-چائناانسٹیٹیوٹ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ (آئی ڈی سی پی سی) کے اشتراک سے منعقد ہوا جس میں آئی ڈی سی پی سی کاپانچ رکنی اعلیٰ سطح کے وفد (جس کی قیادت آئی ڈی سی پی سی کے ترجمان و چیف آف انفارمیشن سفیر ہو ژاؤمِنگ نے کی)نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
اس ڈائیلاگ میں کلیدی خطاب کرتے ہوئے پی سی آئی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اقتصادی و سیاسی طاقت کا عالمی توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے جو ایشیائی صدی کا آغاز ہے۔انہوں نے چین کے پُرامن عروج کو ترقی پذیر ممالک ،ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے لیے ایک طاقت کا سرچشمہ قرار دیا اور پاکستان کی علاقائی سالمیت و خودمختاری خاص طور پر گزشتہ ماہ بھارتی جارحیت کے دوران حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور استحکام کے لیے ایک ناقابلِ تسخیر دیوار ہیں۔ایران کی سرزمین پر حالیہ اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے ان حملوں کو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور نئی سرد جنگ یا چین کے خطرے جیسے بیانیوں کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ سیکیورٹی کا تحفظ تعاون کے ذریعے ہوتا ہے نہ کہ فوجی اتحادوں یا ملکوں کو بدنام کرنے والی غلط معلومات سے۔چین کی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ (آئی ڈی سی پی سی) کے ترجمان سفیر ہو ژاؤمِنگ نے پاکستان کو چینی عوام کے دلوں میں گہری جگہ رکھنے والا ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان ایک سکے کے دو رخوں کی مانند ہیں ، ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ممکن نہیں۔
انہوں نے 2013 سے بی آر آئی کے ارتقاء کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ آج 150 سے زائد ممالک اس منصوبے میں شامل ہیں جو نہ صرف چین کے اندرونی علاقوں کی ترقی کو فروغ دیتا ہے بلکہ عالمی روابط کو بھی مضبوط کرتا ہے۔انہوں نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ وہ دوستی کا اس چراغ کو روشن رکھیں۔اس موقع پر پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ڈائیلاگ کے منتظم مصطفیٰ حیدر سید نے ابتدائی کلمات میں پاکستان اور چین کے درمیان تاریخی سلک روڈ دوستی کا ذکر کرتے ہو ئے کہا کہ یہ تعلق کبھی بھی لین دین یا وقتی مفادات پر مبنی نہیں رہا بلکہ یہ مشترکہ تاریخ، باہمی اعتماد اور پورے خطے کی بہتری کے عزم پر مبنی ہے۔
انہوں نے اس ڈائیلاگ کو پی سی آئی کی اس وسیع تر کاوش کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد ایشیا اور گلوبل ساؤتھ کی آوازوں کو خصوصی طور پر بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں اجاگر کرنا ہے ۔انہوں نے سرد جنگ کی بڑھتی ہوئے بیانیے پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ کی کانگریس کے نئے قائم کردہ “کاونٹرنگ پی آر سی انفلوونس فنڈ” کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو 2023 سے 2027 تک ہر سال 325 ملین ڈالر مختص کرتا ہے تاکہ دنیا بھر میں چین کی کمیونسٹ پارٹی اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مصطفیٰ حیدر سید نے اس اقدام کو سرد جنگ کے دور کی واپسی قرار دیا جو ترقی اور مکالمے کے وسائل کو کم کرتا ہے اور یہ بالکل اس چیز سے متصادم ہے جس کی اس وقت ہمارے خطے کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔پاکستانی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی کھرل نے کہا کہ موجودہ عالمی نظام واضح طور پر بکھر رہا ہےجبکہ چین مسلسل کثیر القطبی، عدم مداخلت اور ریاستوں کے درمیان برابری کی حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بی آر آئی اسی وژن کی عکاسی کرتا ہے جو ایسی باہم مربوط معیشتوں کا نیٹ ورک بناتا ہے جو تصادم کے بجائے مکالمے کا انتخاب کرتا ہے۔"سابق سیکرٹری خارجہ ایمبیسڈراعزاز احمد چوہدری نے بھی تعاون پر مبنی نظاموں کی ضرورت پر زور دیا جسے انہوں نے ایسا وقت قرار دیا جب جنگیں بھڑکتی ہیں اور اصول پامال ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کا "ون-ون تعاون اور باہمی احترام کا فلسفہ ایک ایسے عالمی نظام کی بنیاد رکھتا ہے جو بحرانوں کے بعد ابھرے گا۔
قانونی نکتہ نظر سے وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے سیکیورٹی اور استحکام اولین شرائط ہیں۔انہوں نے سافٹ پاور راستوں کو فروغ دینے کی بات کی جیسے کہ علاقائی زبانوں میں میڈیا کی توسیع خاص طور پر بلوچ زبان میں نشریات تاکہ عوامی روابط کو مستحکم کیا جا سکے۔عقیل ملک نے افغانستان کو سی پیک میں شامل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ یہ مشترکہ مستقبل کے وژن کی ایک فطری توسیع ہے۔
اس تقریب میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و اسکالرز، مختلف یونیورسٹیوں، میڈیا، تھنک ٹینکس، اور سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔جبکہ اس دوران پاکستان-چین کی ‘سافٹ پاور’ کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کے لیے ٹھوس تجاویز زیرِ بحث آئیں اور اس حوالے سے چین میں آئندہ ہونے والی تقریبات اور کانفرنسوں پر بھی گفت و شنید ہوئی۔