ایران اسرائیل جنگ سے پاکستان پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، سردار مسعود خان

ہفتہ 21 جون 2025 20:12

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2025ء)آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور سینئر سفارت کار سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ایران پر حملوں سے پاکستان پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ اگر طوالت اختیار کرتی ہے تو ایران سے مہاجرین کا ایک سیلاب پاکستان کی طرف آسکتا ہے جس طرح افغانستان کی جنگ کے دوران اور بعد میں مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا اور اس سے بھی سنگین خطرہ یہ ہے کہ اگر پاک ایران سرحد کمزور ہوئی تو پاکستان دشمن عناصر جن کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے بالخصوص بی ایل اے، بی ایل ایف اور دوسری پراکسیز وہ پاکستان کے اندر بغیر کسی روک ٹوک کے داخل ہو سکتیںہیں جس سے ملک کی سلامتی کے لئے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے مختلف ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کو اپنی فوجی حکمت عملی کا بنیادی عنصر قرار دے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اب تک نطنز، اصفہان، فردو اور عراق میں جوہری تنصیبات کا نشانہ بنایا ہے اور ان تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی کے پلانٹس بھی ہیں اور میزائلوں کے ٹھکانے بھی ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کے چالیس فیصد فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ اب اسرائیل اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے کہ یا تو امریکہ براہ راست ایران اسرائیل جنگ میں کود پڑے اور بنکر بسٹر بموں یا ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرکے ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کردے یا اسرائیل کو ایران کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے۔

اسرائیل امریکہ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ ایران کے خلاف ایسے ہتھیار استعمال کرے جن سے تابکاری کے اثرات سطح زمین پر آنے کے بجائے زیر زمین چلے جائیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ ماہرین کا خیال ہے اگر ایران کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال ہوئے تو عالمی سطح پر اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے اور خود اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ چین اور روس اصولی طور پر ایران کی مدد کر رہے ہیں لیکن ایران نے اب تک چین اور روس کوئی باقاعدہ مدد کی درخواست نہیں کی۔ خود صدر پیوٹن نے امریکی صدر سے بات کی اور اسرائیل اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔ روس کی ثالثی کی پیشکش کو ایران نے قبول کیا لیکن اسرائیل اس کے لئے تیار نہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیںکہ روس اور چین ایران کے دفاعی شراکت دار نہیں، ایران اور روس کے گہرے باہمی تعلقات ہیں اور اسی طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایران ایک اہم حصہ ہے۔

اسرائیل ایران جنگ کو سفارتی کوششوں سے ٹالنے کے بارے مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ اگرچہ امریکہ نے ایران اسرائیل جنگ شامل ہونے یا نہ ہونے کے لئے جو پندرہ دن کا وقت دیا اس کے بعد سفارتی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ اس وقت برطانوی وزیر خارجہ بہت متحرک ہیں وہ واشنگٹن گئے ہیں جہاں انہوں نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو سے ملاقات کی اور خود صدر ٹرمپ کے رفقا کار بھی صدر ٹرمپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اس جنگ سے دور رہیں لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود واشنگٹن سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ امریکہ نے یورپ، مشرقی وسطیٰ اور ایران کے اردگرد اپنے فوجی اثاثے متعین کردئیے ہیں، ڈیگو گارشیا میں امریکی فوجوں کا بڑا ارتکاز ہے اور ہمیں آنے والے دنوں میں بہت چوکنا رہنا ہوگا۔

ایک طرف سفارت کاری چل رہی اور دوسری طرف جنگ سخت شدت اختیار کر رہی ہے اسلئے مذاکرات کی کامیابی کے بہت زیادہ امکانات کے بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔