کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2025ء)بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں جھالاوان میڈیکل کالج کا منصوبہ بجٹ سے نکالنے پر اپوزیشن کا واک آئوٹ، وزیراعلیٰ نے اجلاس کر کے معاملے سے آگاہ کرنے کی یقین دہانی کروادی۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو پونے گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کی صدارت میں شروع ہوا۔
اجلاس میں بلوچستان کے مالی سال 2025.26کے بجٹ دوسرے روز بھی ارکان نے عام بحث میں حصہ لیا۔اجلاس میں اپوزیشن لیڈر میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ جھالاوان میڈکل کالج کے منصوبے کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا ہے جس پر میں پہلے بھی بات کی، وزیراعلیٰ منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شال کرنے کی ایوان میں یقین دہا نی کرائیں۔ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بجٹ کی تیاری کے موقع پر ایک فارمولے کے تحت پرانے منصوبوں کو دیکھا گیا اور بعض منصوبے کیپس کیے گئے، اپوزیشن لیڈر اس سلسلے میں چیمبر میں بات کریں، منصوبے پر فوری طور پر کچھ کہنے کی بجائے معاملے پر دوبارہ بات کرکے ہی کچھ کہوں گا۔
(جاری ہے)
نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جھالاوان میڈیکل کالج کو بجٹ سے نکالنا خطرناک ہے، انہوں نے کہا کہ کالج کی عمارت مکمل ہونے کے بعد ہی پی ایم ڈی سی کالج کو مکمل طور پر ریکیگنائز کرکے گا ااگر منصوبے کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا تو کالج سے اب تک فارغ التحصیل ڈاکٹروں کے کئی بیج اور وہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کا مستقبل متاثر ہوگا، انہوں نے کہا کہ مشکلات ہر جگہ ہوتی ہیں مگر اس منصوبے کو بجٹ سے نکالنا درست نہیں، حکومت منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل کرئے۔
اپوزیشن لیڈر میر یونس عزیز زہری نے کہا کہکالج میں کافی کام ہوچکا ہے اب منصوبے کو کیوں پی ایس ڈی پی سے نکالا جارہا ہے، میں اس فلور پر پہلے بھی منصوبے کے پی ڈی کے حوالے سے بات کرچکا ہوں، حکومت کی کوتاہی کے ہم ذمہ دار نہیں، مذکورہ پی ڈی کی انکوائری رپورٹ کیوں سامنے نہیں لائی جارہی ہے۔ بعد ازاں منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کیے جانے کے خلاف انہوں نے ایوان سے واک آوٹ کیا، اپوزیشن کے دیگر ارکان نے بھی ان کے ہمراہ واک آوٹ کیا۔
اس موقع پر پینل آف چیئرمین کے رکن علی مدد جتک نے حکومتی ارکان کو اپوزیشن ارکان کو منانے کے لئے بھیجا جس پر اپوزیشن ارکان بائیکاٹ ختم کرکے ایوان میں واپس آگئے، علی مدد جتک نے ایوان میں واپس آنے پر اپوزیشن ارکان کو خوش آمدید کہا۔وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ منصوبے کی افادیت سے انکار نہیں، پہلے بھی کہا کہ اس کو دیکھیں گے، میں فلور پر جو بات کروں گا وہ پوری ذمہ داری سے کروں گا۔
حکومت کسی اہم چیز کا کوئی نقصان نہیں کرئے گی، عوامی نوعیت کے کسی منصوبے کو نظرانداز نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج اپوزیشن کا حق ہے۔ وزیراعلی میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ خضدار کے لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر انجینئر ذمرک خان نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ ایک سال کے لئے ہوتا ہے، آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیے جانے سے پہلے بجٹ میں ہم پچھلے سال کی کارکردگی دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاق میں ہمارے حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا، ہماری پسماندگی وفاقی بجٹ سے ہی ممکن ہے لیکن وفاق سے ہمیں ہمارا پورا حصہ نہیں ملتا بلکہ وفاق ہمیں غریب اور پسماندہ ہونے کا طعنہ دیتا ہے جبکہ وفاق پماری معدنیات، گیس اور سمندر سے چلتا ہے۔ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان پسماندہ ہے۔ریکودک جیسے منصوبے سے بلوچستقان سے فائدہ ہونا چاہیے لیکن ماشکیل میں ریکودک والوں کیلئے 25 ارب کی لاگت سے ڈیم بنایا جارہا ہے، ریکودک منصوبے پر کام کرنے والوں کو وہاں کے عوام کو بنایدی سہولیات فراہم کرنا چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں وسائل برابری کی بنیاد پر تقسیم ہونے چاہیں مگر ایسا نہیں ہورہا، وفاق نے ہمیشہ ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے،ہمیں بلوچستان میں موتر ویز سمیت دیگر سہولیات چاہیں، ہمیں فنڈز آبادی کی بنیاد پر ملتے ہین جبکہ ہمارا موقف ہے کہ آبادی کے ساتھ رقبے اور پسماندگی کو بھی مدنظر رکھا جائے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی بجٹ میں جو ترقیاتی فنڈز رکھے گئے ہیں وہ تمام استعمال ہونے چاہیں۔
تمام منصوبے محکمون کے زریعے مکمل کیے جائیں۔ترقیاتی منصوبے ضرورت اور میرٹ کی بنیاد پر بنائے جائیں۔ بجٹ میں تعلیم،صحت، زراعت، گلہ بانی، امن و امان اور شاہراہوں پر توجہ دی جائے۔ جمعیت علما اسلام کے رکن ڈاکٹر نواز کبزئی نے کہا کہ ڑوب کے علاقے کبزئی میں 1947 سے اب تک کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں دیا گیا، پہلی بار نئے مالی سال کے بجٹ میں فنڈرکھے گئے ہیں،وزیراعلیٰ کی کوششون سے وفاقی حکومت نے قومی شاہراہ کی تعمیر کے لئے وفاقی بجٹ میں 15ارب روپے رکھے ہیں اس سے عوام کو سہولیات میسرآئیں گی۔
نیشنل پارٹی کے رکن رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ ایران اسرائیل کشیدگی کے باعث بلوچستان پر اثرات پڑرہے ہیں، ایران کی سرحد کے قریب واقع اضلاع میں اشیائے خوردو نوش اور پٹرول کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔حکومت صورتحال پر توجہ دئے۔انہوں نے کہا کہ نیا بجٹ پرانے بجٹ کا تسلسل ہے،وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر اور دیگر دستاویزت میں اعدادوشمار میں کافی فرق ہے،عوام کو امید تھی کہ بجٹ میں بیروزگاری کے خاتمے اور صوبے کی ترقی کے لئے بجٹ میں میگا پروجیکٹ شامل ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا، وفاق کی جانب سے بھی صوبے کے لئے کوئی بڑا منصوبہ شامل نہیں کیاگیا ہے، انہوں نے کہاکہ بجٹ میں سولرسسٹم پر 18فیصد ٹیکس لگانے سے زمینداورں اور عام لوگوں کی مشکلات بڑھیں گی، بجٹ میں عوامی مفاد کے منصوبے کم ہیں، بجٹ میں سیکٹر وائز منصوبے ہونے چاہیے تھے۔
پی ایس دی پی میں شامل کیے جانے والے منصوبوں کے لئے مکمل فنڈز بھی جاری کیے جائیں تاکہ ترقیاتی منصوبے التوا کا شکار نہ ہوں،امید ہے وزیراعلی عوامی مسائل پر توجہ دیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنائیں گے، انہوں نے کہا کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے،ملازمین کے مطالبات تسلیم کیے جائیں اور جھالاوان میڈیکل کالج منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے۔
صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ظہور بلیدی نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2025.26 کابجٹ متوازن ہے، بجٹ میں تمام سیکٹر کو اہمیت دی گئی ہے،1028روپے کے بجٹ میں ترقیاتی فنڈز 249ارب روپے ہیں،بجٹ میں سوشل پروٹیکشن کو اولیت دی گئی ہے جس کے تحت اربوں روپے کے منصوبے شامل ہیں، نوجوانوں کو کاروبار کے لئے اربوں روپے سے قرض دیئے جائیں گے، بلوچستان کے تمام علاقوں میں سبزی منڈیاں بنائی اور میٹ پروسسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے جبکہ نصیر آباد ڈویڑن میں فرٹیلائزر سٹیز بنائیں گے، بجٹ میں آبنوشی کی نئے منصوبے شامل ہیں گوادر میں پینے کے پانی کے منصوبے اس سال مکمل کئے جائیں گے، تعلیم، صحت سمیت تمام شعبوں کو بجٹ میں اہمیت دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کے لئے زیادہ حصہ لیا ہے، بلوچستان میں علاقائی اور حلقے کی بنیادوں پر منصوبے نہیں رکھے گئے ہیں بلکہ بڑے منصوبے شامل کئے گئے ہیں، تمام شعبوں کی ترقی کے لئے فنڈز رکھے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے رواں سال 100 فی صد بجٹ خرچ کیا۔جمعیت علما اسلام کے دستگیر بادینی نے کہا کہ ایک ایسی کیمٹی بنائی جائے جو 2024.25 کی اسیکمات کا جائزہ لے کہ زمین پر کس قدر کام ہوا ہے۔
بلوچستان کے لوگ بنیادی حقوق کے رو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں حکومتی اور اپوزیشن کے پندرہ حلقوں کو لے کر ماڈل بنایا جاتا بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح دن بدن گر رہی ہے، ہم مستقبل کا پانی بھی استمعال کرچکے ہیں، اس جانب توجہ دی جائے۔انہوں نے کہا کہ کیڈٹ کالج نوشکی کے منصوبے کو مکمل کیا جائے، بجٹ میں تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی، نوجوانون کے لئے کھیلوں کے مواقع فراہم اور خصوصی افراد کی فلاح کے منصوبے شامل کیے جائیں۔ بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 23 جون سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔