کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2025ء) امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت کراچی کو بجٹ میں ایک بار پھر نظر انداز کرنے ، K-4منصوبے سمیت دیگر منصوبوں کے لیے خاطر خواہ رقم مختص اور کراچی کے لیے کوئی نیا میگا پروجیکٹ شروع نہ کرنے کے خلاف ہفتہ کو مسجد ِ خضراء تا سندھ اسمبلی بلڈنگ تک احتجاجی مارچ کیا گیا ، منعم ظفر خان نے سندھ اسمبلی کے باہر مارچ کے ہزاروں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاق و صوبے میں شامل حکمران پارٹیوں پیپلز پارٹی ، نواز لیگ اور ایم کیو ایم نے ایک بار پھر کراچی دشمن بجٹ پیش کیا اور بجٹ میں کراچی کو کوئی ریلیف نہیں ملا ، 3ہزار ارب روپے کا ٹیکس دینے والا کراچی پانی سے محروم ہے ، انفرا اسٹرکچر تبال حال ، سڑکیں ٹوٹی ہوئی اور ٹرانسپورٹ عملاً موجود نہیں ۔
(جاری ہے)
منعم ظفر خان نے مطالبہ کیا کہ K-4اور دیگر منصوبوں اور شہر کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے لیے کراچی کے لیے 500ارب روپے مختص کیے جائیں ، ٹرانسپورٹ کے لیے 300نہیں 10ہزار بسیں ماسٹر ٹرانزٹ پروگرام اور سرکلر ریلوے بحال کی جائے ، سیوریج اور صفائی ستھرائی کا نظام اور اختیارات ٹائون و یوسیز کو منتقل کیے جائیں ، کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ، ملک کی 54فیصد ایکسپورٹ ، قومی خزانے میں 67فیصد ریونیو اور صوبے سندھ کے بجٹ کا 95فیصد حصہ کراچی فراہم کرتا ہے لیکن کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حق نہیں دیا جاتا ، پورے ملک کو وسائل وینے والا شہر خود وسائل سے محروم اور سنگین مسائل سے دوچار ہے ، گرمی کے موسم میں آدھی آبادی پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے اور حکومتی سرپرستی میں شہر میں ٹینکر مافیا کا راج ہے ، عوام کو پانی ، بجلی ، صحت ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ، واپڈا کے مطابق k-4منصوبے کی تکمیل کے لیے 40ارب روپے درکار تھے لیکن وفاق نے صرف 3.2ارب روپے رکھے جو منصوبے کو عملاً ختم کرنے کے مترادف ہے ، منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کی حق تلفی ہر گز نہیں ہونے دے گی ، وفاق اور صوبے سے اہل کراچی کا حق لے کر رہے گی ، حقوق کراچی تحریک مزید تیز کی جائے گی ، عوام جماعت اسلامی کے دست و بازو اور حقوق کراچی تحریک کا حصہ بنیں ، جماعت اسلامی کے پاس تمام آپشن موجود ہیں۔
جب ہم گورنر ہاؤس اور سی ایم ہاؤس جانے کا فیصلہ کریں گے تو ہم گورنر ہاؤس اور سی ایم ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے۔احتجاجی مارچ سے قائد حزب اختلاف سٹی کونسل بلدیہ عظمیٰ کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ،جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق، جماعت اسلامی کراچی کے ڈپٹی سکریٹریز کراچی یونس بارائی ، ابن الحسن ہاشمی،،عبد الرزاق خان ، بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی، امیر ضلع کورنگی مرزا فرحان،امیر ضلع وسطی سید وجیہ حسن ودیگر نے بھی خطاب کیا،جبکہ نظامت کے فرائض نائب امیر کراچی مسلم پرویز نے ادا کیے ، احتجاجی مارچ کے شرکاء نے کراچی کے حق اور مسائل کے حل کے حوالے سے بینرز و پلے کارڈز بھی اُٹھائے ہوئے تھے ، شرکاء نے صفائی کا اختیار ٹاؤن کو دو، ٹاؤن اور یوسیز کو ترقیاتی فنڈ دو، کراچی کو 300 نہیں 10ہزار بسیں دو، پانی کا کے فور منصوبہ مکمل کرو، سرکلر ریلوے بحال کرو، وزیر بلدیات سعید غنی! اپنا وعدہ پورا کرو، مئیر کراچی پانی ٹینکروں میں نہیں نلکوں میں دوسمیت دیگر نعرے لگائے ۔
منعم ظفر خان نے مزید کہا کہ بد قسمتی سے اسمبلیوں میں وہ لوگ موجود ہیں جو فارم 47 کی پیدوار ہیں اور صرف ٹھپہ لگانے کا کام جانتے ہیں۔ایم کیو ایم جس کا کوئی نام لیوا نہیں تھا فارم 47 کے مطابق قومی اسمبلی کی 7 نشستیں اور سندھ اسمبلی کی 17 نشستیں دے دی گئیں۔ ایم کیو ایم وفاق اور صوبے دونوں میں فرینڈلی اپوزیشن کررہی ہے۔ ایم کیو ایم ایک جانب چاہتی ہے کہ اس کے ایم این ایز کو فنڈ دیے جائیں لیکن وہ کراچی کے پانی کیK-4 منصوبے کے لیے فنڈ نہیں لینا چاہتی۔
آج سے دو سال قبل کراچی کی مئیر شپ پرقبضہ کیا گیا 193 ہار گیا اور 173 جیت گیا۔ پوری دنیا کے شہروں میں کراچی خراب شہری سہولیات میں 173 میں سے 170 نمبر ہے۔ قابض مئیر مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ کراچی تین کروڑ عوام کا شہر ہے۔ قابض مئیر اپنے وزیر اعلی کو بتادیں کہ کراچی کی آبادی کسی بھی طرح ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے شہر کو انفرااسٹرکچر کے نام پر کھود دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر بننے والی ریڈ لائن عوام کے لیے مصیبت بن گئی ہے اس کے لیے 504 یو ایس ڈالر رکھے گئے تھے جسے اب 704 یو ایس ڈالر تک پہنچایا گیا۔ کریم آباد انڈر پاس ڈاکٹر عاصم کی ضرورت تھی اسے تعمیر کر کے 9 ہزار سے زائد دوکانداروں کے روزگار کو تباہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے شہر میں 17 سال میں 300 بسیں دیں اور 100 بسیں بی آر ٹی کے نام پر دی گئیں۔
عالمی اداروں کی پانچ سال کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 40 عوام کے لیے ایک سیٹ ہے۔ ایک جانب شہر میں ٹرانسپورٹ موجود نہیں اور دوسری جانب چنگ چی چلانے والوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے۔ شہر میں 58 فیصد شہری موٹر سائیکل پرسفر کرتے ہیں۔پولیس کے اہلکار شہر میں جگہ جگہ ان کو تنگ کرتے ہیں۔قائد حزب اختلاف سٹی کونسل بلدیہ عظمیٰ کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ کا سندھ اسمبلی کے باہر احتجاجی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے نام پر ناٹک رچانے والی پیپلز پارٹی نے بلدیہ کے تمام اختیارات غصب کیے ہوئے ہیں ،کراچی کے تمام اداروں کو بلدیہ سے لے کر سندھ کے ماتحت کردیا۔
کچرا اٹھانے کا نظام بلدیہ کے پاس تھا اسے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ادارہ بنا کر پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹھیکے پر دے دیا گیا۔ قابض مئیر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن یونین کمیٹی کو ترقیاتی بجٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے نام پر مختص رقم کو ’’سسٹم ‘‘میں پہنچا دیا جاتا ہے جو کراچی اور پورے صوبے کو کھا رہا ہے ، سندھ اسمبلی جسے عوام کے حقوق کا ترجمان ہونا تھا لیکن اس نے شہری ادارو ں پر قبضہ اور ڈاکا ڈالنا شروع کردیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین کہتے ہیں کہ ہم نے 10 لاکھ گھر بناکر دیے ہیں ، ماہرین کے مطابق صوبہ سندھ جھگیوں کا شہر ہے۔ محمد فاروق نے احتجاجی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر بھی احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت کے جھوٹ، بجٹ کے جعلی پلندے کو بے نقاب اور مسترد کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت کا بجٹ عوام دشمن و کراچی دشمن بجٹ ہے۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے پاس کراچی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔سندھ اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ 3 ہزار ارب سے زائد ٹیکس دینے والے شہریوں کے لیے پانی کے کے فور منصوبے کے لیے 40 ارب تک نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے وزراء کو اپنی کارکردگی بتانا پڑتی ہے، جو لوگ کام کرتے ہیں اسے عوام خود دیکھ لیتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔