قومی اسمبلی نے وزارت انسانی حقوق کے 1 ارب 74 کروڑ 35 لاکھ روپے کے 5 مطالبات زر کی منظوری دے دی

بدھ 25 جون 2025 17:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2025ء) قومی اسمبلی میں 30 جون 2026ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے وزارت انسانی حقوق کے 1 ارب 74 کروڑ 35 لاکھ 14 ہزار روپے کے 5 مطالبات زر کی منظوری دے دی گئی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی کٹوتی کی 96 تحاریک مسترد کر دی گئیں جبکہ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے پا کستان کا سٹیٹس ''اے'' ہے، قائمہ کمیٹی کا اختیار کسی قیدی سے ملاقات کا شیڈول دینا یا اربوں روپے کی کرپشن یا عسکری تنصیبات کو جلانے پر معافی دلانا نہیں ہے۔

بدھ کو وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں شعبہ انسانی حقوق کے لئے 1 ارب 27کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 60 تحاریک جمع کرائی گئیں۔

(جاری ہے)

عالیہ کامران اور آصف خان نے کٹوتی کی تحریکیں پیش کیں جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے لئے 23 کروڑ 58 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 6 تحاریک پیش کی گئیں جن کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔

وزیر خزانہ نے قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کے لئے 9 کروڑ 27 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 12 تحاریک جمع کرائی گئیں، ایوان میں انور تاج اور عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریکیں پیش کیں جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے قومی کمیشن برائے وقار نسواں کے لئے 11 کروڑ 87 لاکھ کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 17 تحاریک جمع کرائی گئیں، شاندانہ گلزار نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔

وزیر خزانہ نے شعبہ انسانی حقوق کے ترقیاتی اخراجات کے لئے 2 کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی ایک تحریک جمع کرائی گئی، ریاض فتیانہ اور حمید حسین نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ کٹوتی کی تحریکوں کے حق میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا، عالیہ کامران، آصف خان، شہریار آفریدی، علی خان جدون، ریاض فتیانہ، زرتاج گل، بشیر خان، شاندانہ گلزار، ارباب شیر علی اور دیگر نے کہا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، سیاسی لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، انسانی حقوق ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، حکومت جبری گمشدگی کے خلاف اقدامات اٹھائے۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کا سٹیٹس ''اے'' ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا سٹیٹس ''سی'' ہے، یہ درجہ بندی ہم نے نہیں کی بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کے کلسٹر نے جاری کی ہے، اس کو بھی سراہا جانا چاہئے تھا، اس کے علاوہ چائلڈ میرج، کرسچین میرج ایکٹ سمیت اس ایوان نے حالیہ مدت میں جو قانون سازی کی ہے اس کو بھی سراہا جانا چاہئے تھا۔

انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کا وزارت کیلئے بجٹ کی تخصیص سے کیا تعلق جوڑا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹیوں کے اپنے رولز موجود ہیں ان کی حدود نگرانی کیلئے ہیں، ان کا کام جیل میں قیدیوں سے ملاقاتیں کرانا،اربوں روپے کرپشن کے کیسز میں بریت، عدالتوں سے ضمانت کی تاریخیں مختصر کرانا نہیں ہے، ان کمیٹیوں کا ایجنڈا اگر قیدی نمبر 804 ہو گا تو سیکرٹریٹ کچھ نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں وزارت کے تحت 3 ،4 کمیشن کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت یا وزیر یا سیکرٹری کے پاس اربوں روپے کی کرپشن معاف کرنے، عسکری تنصیبات پر تیل چھڑک کر انہیں آگ لگانے والوں کی سزا معاف کرنے کا اختیار ہوتا تو ہم اسے ضرور استعمال کرتے یا ان کے دورے حکومت میں اس وقت کی وزیر نے ڈی چوک میں عدالت لگا کر ایسے فیصلے کئے ہوں تو ہم بھی کرتے۔

انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی مجبوری یہ ہے کہ انہوں نے اراکین کی وڈیوز بنا کر اڈیالہ جیل بھیجنی ہوتی ہیں کہ فلاں رکن نے گالیاں دیں اور فلاں نے نہیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرت کے بیج ہم نے نہیں بوئے ہم نے طویل عرصے سے قربانیاں دی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نوازشریف تک اور ان کے ادوار میں مریم نوازشریف سے لے کر فریال تالپور تک احسن اقبال سے لیکر ثناء اللہ اور خورشید شاہ تک سب کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔

چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون کے پابند ہیں اور ہمیں قانون کے مطابق چلنا ہے، انہیں بھی پابند کیا جائے کہ یہ قانون کے مطابق چلیں۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ گزشتہ ناخوشگوار واقعہ کو ابھی 18 گھنٹے بھی نہیں گزرے ہیں اور اپوزیشن نے ایک بار پھر وہی وطیرہ اپنا لیا ہے انہیں اس سے گریز کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جن کو مسترد کر دیا گیا جبکہ مطالبات زر کی ایوان نے منظوری دیدی۔