سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس

جمعرات 26 جون 2025 22:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 جون2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں چیئرپرسن سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں قومی تعلیمی اہمیت کے حامل متعدد قانونی مسودوں اور ادارہ جاتی امور کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں انٹرنیشنل ایگزامینیشن بورڈ بل پر غور سے کیا جسے ارکان کی جانب سے بھرپور حمایت ملی۔

کمیٹی کے رکن خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ "انٹرنیشنل ایگزامینیشن بورڈ بل کو منظور ہونا چاہیے۔"۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل پاکستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ رانا قاسم نون نے ملکی بورڈز کی کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےانہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں تقریباً 37 انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری بورڈز کام کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ خود ہی بچوں کو پوزیشنز دیتے ہیں لیکن ٹاپرز انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔شفاف تعلیمی نظام ملک کے مفاد میں ہے۔ کمیٹی نے غازی انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل 2025 پر بھی غور کیا جسے سینیٹر شیری رحمان نے پیش کیا۔ ایم این اے سمینہ خالد غازی نے ادارے پر بریفنگ دی تاہم دائرہ اختیار سے متعلق تحفظات اٹھائے گئے۔ کمیٹی کے رکن کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا، "اگر ادارہ پنجاب میں ہے تو اسے وفاق سے کیوں منظور کروایا جا رہا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے معاملے کو مؤخر کرنے کی تجویز دی، جس پر کمیٹی نے بل کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کرنے پر اتفاق کیا۔ وفاقی وزیر تعلیم کی جانب سے پیش کردہ ایف بی ایس ای ترمیمی بل نے قانونی پہلوؤں پر شدید بحث کو جنم دیا۔ چیئرپرسن نے وزیر کی غیر موجودگی پر سوال اٹھایا. کمیٹی کے رکن کامران مرتضیٰ نے آئینی نکات اٹھاتے ہوئے کہا، "کیا آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینا چاہتے ہیں اور باضابطہ درخواست کی کہ میرا اس بل سے اختلاف کمیٹی میں نوٹ کیا جائے۔

کمیٹی کے رکن افنان اللہ خان نے جواب دیا، آپ قانون تبدیل کر سکتے ہیں، اور قانون سازی کے اختیارات کی تصدیق کی۔ وزارت کے حکام نے واضح کیا کہ "قانون میں ترمیم قومی اسمبلی کا اختیار ہے، لیکن یہ فیصلہ کمیٹی پر چھوڑ دیا گیا کہ فیڈرل بورڈ کے چیئرمین کی تقرری کا اختیار کابینہ کو دیا جائے یا وزیرِاعظم کو۔ چیئرپرسن نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا، "یہ بل قانون کے مطابق ہے، کامران مرتضیٰ کا اختلاف نوٹ کیا جائے۔

اجلاس میں بلوچستان سے متعلق یونیورسٹی آف بزنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل پر بات کرتے ہوئے سینیٹر عبدالشکور نے زور دیا،یہ بل بطور خصوصی کیس منظور ہونا چاہیے ،علاقائی نمائندگی اور تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے، چیئرپرسن نے سینیٹر افنان اللہ خان کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی، جس میں سینیٹر نسیم احسان بھی شامل ہوں گی۔ افنان اللہ نے کہا، ہم اس ساری صورتحال کا حل کمیٹی میں تلاش کریں گے۔

سینیٹر سرمد علی نے سوال اٹھایا کہ کیا جسمانی معذوری کے شکار بچوں کے اسکولوں میں داخلے کے لیے کوئی پالیسی موجود ہے، وزارت کے حکام نے تصدیق کی کہ سرکاری و نجی اداروں کے لیے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائننگ کے انتظامی معاملات پر تنقید کرتے ہوئے چیئرپرسن نے کہا، "ایک ہی وائس چانسلر بار بار آتا ہے کمیٹی نے وی سی کی تقرری سے متعلق پالیسی پر نظرثانی اور ترامیم کے لیے بل کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا۔

بشریٰ بٹ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تمام قوانین اور ترامیم قانون کے مطابق اور طلبہ کے مفاد اور تعلیمی بہتری کو مدنظر رکھ کر کی جائیں۔ اجلاس میں سینیٹرز فلک ناز، فوزیہ ارشد، ڈاکٹر افنان اللہ خان، کامران مرتضیٰ، خالدہ عتیب، نسیمہ احسان، گردیپ سنگھ، شیری رحمان، عبدالشکور خان، سرمد علی، اور خلیل طاہر سندھو (ورچوئلی) نے شرکت کی۔