ًسی سی ڈی کے ہاتھوں سینکڑوں زیر حراست افراد کے قتل کی تفتیش کیلئے ایف آئی اے سے رجوع

۷چند روز میں الگ الگ اضلاع اور تھانوں کی حدود میں ہونے والے ان قتلوں کی وارداتوں میں حیرت انگیز مماثلت ہے ۷پولیس افسران کا اجرت پر قتل کرنے اور تاوان وصولی میں ملوث ہونے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے ، درخواست میں مؤقف

بدھ 9 جولائی 2025 21:20

) لاہور (آن لائن) سی سی ڈی کے ہاتھوں سینکڑوں زیر حراست افراد کے قتل کی تفتیش کے لئے ایف آئی اے سے رجوع کرلیا گیا، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور سیالگ الگ درخواستوں میں انسانی حقوق کارکن اور جنرل سیکریٹری ’’وکلاء برائے انسانی حقوق‘‘ دلشاد خان ایڈووکیٹ نے اپنے وکیل ذیشان اعوان ایڈووکیٹ چیئرمین ’’وکلاء برائے انسانی حقوق‘‘ کے ذریعے زیرحراست تشدد اور موت ایکٹ 2022 کی دفعہ چار کے تحت تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی ہدایت پر آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے چند ہفتے کے مختصر عرصے میں سیکڑوں زیر حراست ملزمان کو ان ملزمان کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل کیا، چند روز میں الگ الگ اضلاع اور تھانوں کی حدود میں ہونے والے ان قتلوں کی وارداتوں میں حیرت انگیز مماثلت ہے اور محض چند ہفتوں میں ہونے والے سینکڑوں مبینہ پولیس مقابلوں میں زیرحراست ملزمان کا اس وقت اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے قتل ہونا بیان کیا گیا جب ان ملزمان کو سی سی ڈی ٹیمیں برآمدگی کے لئے لے جا رہی ہوتی ہیں، ان پولیس مقابلوں میں کوئی پولیس والا ہلاک یاشدید زخمی نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

دلشاد خان ایڈووکیٹ نے اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ اس سرکاری مہم کی آڑ میں جرائم پیشہ رجحان رکھنے والے پولیس افسران کا اجرت پر قتل کرنے اور تاوان وصولی میں ملوث ہونے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے جس سے جرائم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا، اس تناظر میں ان قتلوں کی میرٹ پر تفتیش اور منطقی قانونی کاروائی لازمی امر ہے۔ ایف آئی اے کو کی گئی شکایت پر چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق قومی اسمبلی پاکستان صاحبزادہ حامد رضا، صوبائی اسمبلی پنجاب میں قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل چوہدری طاہر نصراللہ وڑائچ، وائس چیئرمین پنجاب بارکونسل عرفان صادق تارڑ اور دیگر بااثراور اہل رائے افراد کے ساتھ شیئر کی گئی ہے تاکہ اس پر مؤثر اجتماعی آواز اٹھائی جا سکے۔