Live Updates

مشرق وسطی: تولید میں کمی، کم بچے اور بڑے مسائل؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 20 جولائی 2025 14:20

مشرق وسطی: تولید میں کمی، کم بچے اور بڑے مسائل؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جولائی 2025ء) مشرق وسطیٰ، میں ماہرین کے مطابق، ایک "خاموش انقلاب" جاری ہے، لیکن اس کا تعلق سڑکوں پر احتجاج یا حکومتوں کا تختہ الٹنے سے نہیں ہے۔ یہ انقلاب مقامی لوگوں کے اپنے گھروں میں خلوت میں رونما ہورہا۔ یہ 'انقلاب‘ خطے میں تولیدی صلاحیت کی شرح سے متعلق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تقریباً تمام ممالک میں، گزشتہ دو سے تین دہائیوں کے دوران ایک خاتون کے ہاں بچے پیدا کرنے کی شرح میں ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے۔

بارآوری یا فرٹیلیٹی کی شرح (ٹی ایف آر) سے مراد یہ ہے کہ 15 سے 49 سال کی عمر کے درمیان ایک عورت کے ہاں کتنے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ تازہ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں یہ شرح سن 1960 کی دہائی کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)

اس خطے میں پہلے خواتین کے پاس اوسطاً سات بچے پیدا ہوا کرتے تھے لیکن 2010 کی دہائی کے اوائل تک یہ شرح صرف تین بچوں تک رہ گئی۔

کئی عرب ملکوں میں خون اور آگ، دبئی میں تعیش جاری

تولیدی صلاحیت کی شرح میں کمی ایک عالمی رجحان ہے۔ لیکن محققین نے اطلاع دی کہ 2016 تک مشرقِ وسطیٰ میں "گزشتہ 30 سالوں میں دنیا میں سب سے زیادہ تولیدی صلاحیت میں کمی" دیکھی گئی۔

پچھلی دہائی کے دوران یہ تعداد تیزی سے گرتی رہی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں مڈل ایسٹ فرٹیلیٹی سوسائٹی کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خطے کے ممالک میں 2011 اور 2021 کے دوران 3.8 فیصد سے لے کر 24.3 فیصد کے درمیان مسلسل کمی دیکھی گئی۔

یہ کمی سب سے زیادہ اردن، عراق اور یمن میں واقع ہوئی ہے۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2023 میں، عرب لیگ کے 22 رکنی ممالک میں سے پانچ ہی ایسے ملک تھے، جہاں تولیدی صلاحیت کی شرح 2.1 سے بھی کم تھی، جو آبادی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے فی خاتون بچوں کی تعداد ضروری ہوتی ہے۔ مزید چار ممالک اس شرح کے آس پاس تھے۔

ردعمل کی محدود صلاحیت، مشرق وسطی کے مسیحیوں کے لئے مسئلہ

مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کی خواتین میں شرح تولید صرف ایک اعشاریہ دو فیصد ہی رہی، جو آبادی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے بہت کم ہے۔

یہ شرح بعض یورپی ممالک سے بھی کم ہے، جیسے کہ 2024 میں جرمنی میں 1.38فی خاتون بچے پیدا کرنے کی شرح تھی۔

مشرق وسطی میں لوگ بچے کم کیوں پیدا کر رہے ہیں؟

ماہرین نے اس پر متعدد مفروضے پیش کیے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس کا تعلق دو منسلک زمروں سے ہے: اقتصادی اور سیاسی، یا پھر سماجی اور ثقافتی۔

پہلے زمرے میں جنگ اور سیاسی غیر یقینی صورتحال جیسی چیزیں شامل ہیں اور اس لیے لوگ بچوں کو غیر محفوظ دنیا میں نہیں لانا چاہتے۔

مصر اور اردن میں قومی سبسڈی کے خاتمے سمیت اقتصادی تبدیلی، مہنگائی، یا تیل والی ریاستوں میں پبلک سیکٹر کی کم ملازمتیں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شادی اور بچوں کے اخراجات پورے کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی سنگین حقیقت بھی مشرق وسطیٰ میں نوجوان جوڑوں کے لیے ایک بڑھتا ہوا عنصر ہے، بہت سے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ علاقہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔

کیا سعودی عرب کا خواب پورا ہو پائے گا؟

سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں میں مانع حمل ادویات کی بڑھتی ہوئی دستیابی اور قبولیت نیز طلاق کے مسائل شامل ہیں۔ اس میں تعلیم تک خواتین کی رسائی اور افرادی میں ان کی شمولیت جیسے عناصر شامل ہیں۔

اس میں ممکنہ طور پر شہری زندگی کی تہذیب کا عنصر بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر اردن اور مصر کے دیہی علاقوں میں شرح پیدائش بڑے شہروں سے کے مقابلے میں مسلسل دوگنی رہی ہے۔

اس میں سوشل میڈیا کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک نام نہاد "مغربی طرز زندگی" کے بارے میں معلومات تک رسائی کے سبب یہ ذہنی تبدیلی آ رہی ہے کہ ایک مثالی خاندان کیسا لگتا ہے۔

امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں بشریات اور بین الاقوامی امور کی پروفیسر مارسیا انہورن کا کہنا ہے کہ یہ تمام عوامل ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

انہوں نے خطے میں بچوں اور شادیوں کے بدلتے رویوں پر بڑے پیمانے کی تحقیق کی ہے۔

سورج، سمندر اور جنس مخالف: سعودی معاشرہ بتدریج کھلتا ہوا

مشرق وسطیٰ میں شادی کے رسم و رواج میں اکثر دولت کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عراق میں شادی کے لیے سونے کے زیورات، نقد رقم یا مکمل طور پر سجا ہوا گھر شامل ہو سکتا ہے، جس کے لیے اکثر دولہا رقم ادا کرتا ہے۔

انہورن کا کہنا ہے کہ "نوجوانوں کے پاس معاشی طور پر اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ شادی کے لیے ان سب چیزوں کو اکٹھا کر سکیں" اس لیے وہ اس کے بجائے انتظار کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی ایک بڑھتی ہوئی جماعت بھی ایسی ہے، جو صحیح ساتھی کا انتظار کر رہی ہیں یا جو شاید کبھی شادی نہیں کر سکتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، " پورے خطے میں، بڑے خاندان رکھنے میں دلچسپی میں بھی کمی آئی ہے۔

تصور یہ ہے کہ میں ایک اعلیٰ معیار کا، چھوٹا خاندان چاہوں گا، جہاں میں اپنے بچوں کو وہ چیزیں دے سکتا ہوں جس کے وہ مستحق ہیں۔"

سعودی معیشت میں مغربی ریستورانوں کے باعث غیر معمولی ترقی

اثرات کیا مرتب ہوں گے؟

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے ماہر معاشیات نکولس ایبرسٹڈ نے گزشتہ سال کے آخر میں فارن افیئرز میگزین کے لیے لکھا تھا: " ہم انسانی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں، جسے 'گرتی آبادی کا دور' کہیں۔

سن 1300 کی دہائی میں بلیک ڈیتھ کے بعد پہلی بار کرہ ارض کی آبادی میں کمی آئے گی۔"

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے محققین نے اس بحث کے بارے میں گزشتہ ماہ لکھا تھا، "انسانیت کے مستقبل کے لیے اس کا مطلب کیا ہو گا، یہ تو مبہم ہے۔"

آئی ایم ایف کے محققین نے اس پر لکھا تھا، "ایک طرف، کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے، کیونکہ کارکن، سائنسدان اور تخلیق کار وہاں بہت کم ہوں گے ۔

۔۔ دوسری طرف، کم بچے اور چھوٹی آبادی کا مطلب ہے کہ رہائش اور بچوں کی دیکھ بھال پر خرچ کرنے کی ضرورت کم ہو گی، دوسرے استعمال کے لیے وسائل آزاد ہوں گے۔ آبادی میں کمی ماحول پر دباؤ کو بھی کم کر سکتی ہے۔"

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماج میں بزرگ افراد کا ایک بڑا تناسب "سماجی تحفظ کے جال اور پنشن کی پائیداری" کو چیلنج کرے گا۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مشرق وسطیٰ میں اور بھی زیادہ واضح طور پر ہو سکتا ہے، جہاں کم عمر افراد اپنے بزرگوں کی جسمانی طور پر دیکھ بھال کرتے ہیں اور سینیئر کیئر ہومز عام بات نہیں ہیں۔

کالم : میں ایک عرب خاتون ہوں، کیا میں استحصال کا شکار ہوں؟

ایبرسٹڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے وسیع تر علاقے میں اب بہت سے معاشروں کی ایک نسل، سب نہیں، تاہم بہت ساری، ختم ہو جائیں گی اور شاید سکڑ جانے کے دہانے پر بھی ہوں گی، جس میں بڑی عمر کے لوگ دائمی بیماری سے دوچار ہوں گے۔

"

اس لحاظ سے کہ آیا گرتی ہوئی تولیدی صلاحیت کی سطح طویل مدت میں اچھی ہے یا بری ایبرسٹڈ محتاط طور پر پرامید ہیں۔ وہ کہتے ہیں، "میں نے اس کا مطالعہ بہت عرصہ پہلے شروع کیا تھا، اس دور میں جب ہر کوئی آبادی میں ہونے والے دھماکے سے پریشان تھا،" وہ بتاتے ہیں۔ "لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کے بارے میں بہت زیادہ خوف بنیادی طور پر غلط تھا، کیونکہ ایسا تو تھا نہیں کہ لوگ خرگوش کی طرح افزائش کر رہے تھے اور مکھیوں کی طرح مرنا چھوڑ دیا ہے۔

آبادی کا دھماکہ دراصل صحت کا دھماکہ تھا۔"

سعودی خواتین کو اولین ڈرائیونگ لائسنس جاری کر دیے گئے

ایبرسٹڈ کا کہنا ہے کہ تعلیم اور علم میں بہتری کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال میں یہ توسیع جاری ہے۔ "اور یہ سب ایک آباد ہوتے مستقبل میں انسانی خوشحالی کے امکانات کو بڑھا رہے ہیں۔ ایک سکڑتی ہوئی، عمر رسیدہ دنیا میں، ہر طرح کی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے لیکن ہم ایک خوبصورت اور موافقت پذیر نوع ہیں۔"

ص ز/ ج ا (کیتھرین شیئر)

Live مہنگائی کا طوفان سے متعلق تازہ ترین معلومات