اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جولائی 2025ء) پاکستان کے صوبے بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل سے متعلق جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، اس ویڈیو میں ظاہر ہونے والے بعض افراد مقامی براہوی زبان میں بات کر رہے تھے۔ تاہم متاثرہ خاندانوں میں سے اب تک کسی بھی فرد نے انتظامیہ سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
قتل ہونے والی خاتون کی عمر 30 سال کے قریب بتائی گئی ہے، جسے اس کے شوہر سمیت سرخ رنگ کی ایک گاڑی سے مسلح افراد نیچے اتار کر ایک پہاڑی علاقے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیتے ہیں۔
قتل کے دلخراش واقعے پر حکومتی موقف کیا ہے ؟
غیرت کے نام پر قتل کے اس واقعے سے متعلق ریاستی وزیر اعلی کی ایما پر ہشت گردی کے تحت ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کہتے ہیں کہ اس کیس میں ریاست خود فریق بننے جا رہی ہے۔
کوئٹہ میں جاری کئے گئے بیان میں انہوں نے کہا، " ابتدائی تحقیقات میں اس واقعے کے مقام کی نشاندہی ہو گئی ہے۔
نادرا کی مدد سے ویڈیو میں ظاہر ہونے والے افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ اب تک ایک ملوث ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقتولین کی لاشیں تاحال بر آمد نہیں ہو سکی ہیں ۔اس معاملے میں انصاف یقینی بنانےکے لیے حکومت کوئی سیاسی یا قبائلی دباؤ قبول نہیں کرے گی۔"کوئٹہ میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار عبدالجبار بلوچ کہتے ہیں کہ جس پہاڑی علاقے میں اس جوڑے کو قتل کیا گیا ہے وہ صوبے کا ایک دور افتادہ نواحی علاقہ ہے اور ملزمان کی گاڑیوں کا ڈیٹا بھی ایکسائز کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "قتل کے اس واقعے کے حوالے سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مقتولین مقامی بلوچ ہیں۔ تحقیقات کے دوران کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جس کی روشنی میں روپوش ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔"
جبار بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں رائج قبائلی نظام کی وجہ سے اکثر اوقات غیرت کے نام پر پیش آنے والے اس نوعیت کے واقعات میں متاثرین معاشرتی روایات اور دباؤ کی وجہ سے انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "کوئی رسم یا روایت اس طرح کے واقعات کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔ اس افسوسناک واقعے میں جو عناصر ملوث ہیں انہیں بہت جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ایسے سفاکانہ واقعات انسانی وقار اور معاشرتی اقتدار کی توہین ہیں، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔واقعے پر سماجی ردعمل اور بڑھتی ہوئی عوامی تشویش
کوئٹہ میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن سمیرا بلوچ کہتی ہیں کہ جب تک ہم غیرت کے نام پر قتل کو روایتی مسئلہ سمجھتے رہیں گے تب تک ہر پسند کی شادی کرنے والا جوڑا خوف کے سائے میں جیتا رہے گا۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "اس طرح کے افسوسناک واقعات بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں ماضی میں بھی تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں۔ حکومتی دعوے اور اعلانات اپنی جگہ لیکن ان واقعات کے جو پس پردہ اصل محرکات ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ جامع قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرتی اقتدار اور ناموس کا تصور اکثر اوقات لوگوں کو خاندان کی عزت بچانے کے نام پر قاتل بنا دیتے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں، جن کو کبھی زیر غور نہیں لایا جاتا۔ پسند کی شادی کو بغاوت تصور کرنے کا یہ رجحان اس جدید دور میں آج بھی کم ہونے کے بجائے فروغ پا رہا ہے۔سمیرا بلوچ کا کہنا تھا کہ ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون موجودہ ہے لیکن اس پر بہت کم عمل درآمد ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ان کے بقول ، "یہاں کئی عدالتی فیصلوں میں بھی اس طرح کے واقعات کو غیر قانونی اور غیر اسلامی قرار دیا جا چکا ہے لیکن فرسودہ روایات کی وجہ سے مثاثرہ خاندان ایسے واقعات پر اکثر اوقات قانونی کارروائی کے بجائے خاموش اختیار کر لیتے ہیں۔"غیرت کے نام پر قتل پر انسانی حقوق کے ماہرین کیا کہتے ہیں؟
یونیورسل ہیومن رائٹس ارگنائزیشن کے سینیئر عہدیدار عبدالقیوم خان کہتے ہیں کہ ملکی قانون کسی طور پر یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ کوئی اپنی بہن ، بیٹی یا بیوی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے ہر جان سے مار دے۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،" دیکھیں بلوچستان میں اس طرح کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ رونما ہونا قانون کی عمل داری پر یقیناً کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ قبائلی دباؤ، اس بوسیدہ نظام میں انصاف کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت غیرت کے نام پر قتل ، قتل عمد کے زمرے میں آتا ہے۔ 2016 کے ترمیم شدہ کریمینل لاء کے تحت اگر مقتول کے ورثاء ملزمان کو معاف بھی کر دیں تب بھی عدالت ریاست کی جانب سے ملزمان کو سزا دے سکتی ہے۔
اس معاملے میں موثر تحفظ اور بر وقت انصاف یقینی بنانے کے لیے حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔"قیوم خان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل سماجی تشدد کی ایک شکل بھی ہے جسے بعض لوگ ثقافتی روایت کا نام دے کر قانونی کارروائی سے بچ نکلتے ہیں۔ ان کے بقول، "غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہمیشہ یہاں پیش آتے ہیں مگر بہت کم واقعات میں ملزمان کو سزا ملتی ہے۔ وجہ صرف قبائلی دباؤ یا ثبوت کی کمی نہیں بلکہ پولیس کی جانب سے ناقص تفتیش اور پراسیکیوشن کی کمزور تیار ی بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نظام انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔"