مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کی چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ

بھارت کئی سالوں بعد عالمی منڈی میں واپس آرہا ہے جس سے چاول کی قیمتوں اور طلب ورسد میں کمی بیشی سامنے آرہی ہے . رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 21 جولائی 2025 14:53

مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کی چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جولائی ۔2025 )مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کی چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جس کی بڑی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں تیزی سے کمی رہی یہ اعدادوشمار آپٹیمس کیپٹل مینجمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئے ہیںبروکریج ہاﺅس کے مطابق مالی سال 2025 میں پاکستان کی مجموعی چاول کی برآمدات 5.8 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی) رہیں جو گزشتہ مالی سال کے 6 ایم ایم ٹی کے مقابلے میں 3.7 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہیں تاہم آمدن کے اعتبار سے صورتحال خاصی مایوس کن رہی.

چاول کی برآمدات سے حاصل ہونے والی مجموعی آمدنی 14.7 فیصد کی نمایاں کمی کے ساتھ 3.93 ارب ڈالر سے کم ہو کر 3.

(جاری ہے)

36 ارب ڈالر رہی یہ کمی بنیادی طور پر عالمی منڈی میں قیمتوں میں گراوٹ، خصوصاً نان باسمتی اقسام کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہوئی جو پاکستان کی چاول برآمدات کا 85 فیصد سے زائد حصہ بنتی ہیں باسمتی چاول کی برآمدات میں مقدار کے لحاظ سے 3 فیصد کا معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جو 797,000 ٹن تک پہنچ گئیں.

اس سے حاصل شدہ آمدنی 5.2 فیصد گھٹ کر 832 ملین ڈالر رہ گئی جو مالی سال 2024 میں 877 ملین ڈالر تھی اعدادوشمار کے مطابق قیمتوں میں کمی کی بڑی وجہ اوسط قیمت میں 9.1 فیصد سالانہ کمی رہی جو مالی سال 2024 کے 320.8 روپے فی کلو گرام سے کم ہو کر مالی سال 2025 میں 291.6 روپے فی کلو گرام تک آ گئی دریں اثنا دیگر اقسام کے چاول کی برآمدات میں مقدار کے لحاظ سے 4.7 فیصد اور مالیت کے لحاظ سے 17.4 فیصد کمی واقع ہوئی جو اہم عالمی منڈیوں میں کمزور طلب اور شدید قیمتوں کے دباو¿ کی عکاسی کرتی ہے.

مالی سال 2025 میں نان باسمتی چاول کی برآمدات سے 2.52 ارب ڈالر حاصل ہوئے جو مالی سال 2024 میں 3.05 ارب ڈالر تھے جون 2025 کے دوران چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی مئی کے مقابلے میں برآمدات میں 40.6 فیصد کمی ہوئی جبکہ جون 2024 کے مقابلے میں 37.1 فیصد کی کمی دیکھی گئی ماہانہ برآمدی آمدنی بھی کم ہو کر 150 ملین ڈالر رہ گئی جو سالانہ بنیادوں پر 50 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 37.4 فیصد کم ہے.

دریں اثنا مالی سال 2025 میں چاول کا حصہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں کم ہو کر 10.5 فیصد رہ گیا جو گزشتہ مالی سال میں 12.8 فیصد تھا آمدنی میں نمایاں کمی کے باوجود چاول کا شعبہ پاکستان کی برآمدات اور زرمبادلہ کے حصول میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے ادھر ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پچھلے کئی سالوں سے چاول کی برآمدات کو انتہائی کم سطح پر رکھا ہوا تھا تاہم اس سال بھارت میں چاول کی فصل بہتر ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں بھارتی چاول دوبارہ واپس آرہا ہے جس سے چاول کی قیمتوں میں کمی ہورہی ہے .

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اور ایکسپوٹرز کی جانب سے بغیرمنصوبہ بندی اور گھریلو ضروریات کو نظراندازکرتے ہوئے اندھا دھندچاول برآمد کیا جس سے ملک کے اندر چاول کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا اور پرچون میںدرجہ اول کے چاول کی فی کلوقیمت دو سال کے دوران120روپے کلو سے بڑھ کر360روپے کلو تک پہنچ گئی . ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی‘چاول‘گندم جیسی بنیادوں ضروریات کی برآمد اور درآمد کے لیے دوسرے ملکوں کی طرح ایک ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور بنیادی ضرورت کی اجناس کو برآمد کرنے کی اجازت کے حوالے سے سخت نگرانی والے قوانین بنائے جائیں تاکہ مقامی مارکیٹ کو تحفظ حاصل رہے .

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں دو سے تین ماہ کی مختصر ترین مدت میں چینی کی برآمداور درآمد سے مارکیٹ میں قلت اور قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا جس سے متعلقہ اداروں کی نااہلی کھل کرسامنے آئی ہے کہ ہماری وزارتیں اور ادارے دو‘تین ماہ کی منصوبہ بندی کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے اتنی مختصرمدت میں برآمد شدہ چینی کے بحری جہاز اپنی منزل تک بمشکل پہنچے ہونگے کہ حکومت نے عالمی مارکیٹ کے ریٹ پر انہیں واپس خریدنے کا اعلان کردیا.

انہوں نے کہا کہ کرپشن کا پہلو بھی نظراندازنہیں کیا جاسکتا مگر اس فیصلے سے دوہرا نقصان پہنچے گا کرشنگ سیزن کے قریب اس طرح کا فیصلہ گنے کے کاشتکاروں کے لیے معاشی قتل کے مترادف ہے ‘کرشنگ سیزن کے دوران جب وافر چینی مارکیٹ میں آجائے گی تو گنے کے کاشتکاروں کو فصل کی قیمت نہیں ملے گی پالیسی سازوں کے ایک غلط فیصلے کے اثرات سال بھر رہیں گے شہریوں کو مہنگے دامو ں چینی خریدنی پڑرہی ہے جبکہ کاشتکار ایک سال سے فصل تیار ہونے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اگلی فصل کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے مگر اسے جب بروقت معاوضہ نہیں ملے گا تو یقینی طور پر زرعی شعبہ بھی متاثرہوگا کیونکہ کسان گندم کی سرکاری سطح پر خریداری نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اور اسے گندم انتہائی کم قیمت پر بیچنی پڑی ہے.