عافیہ صدیقی کیس،وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو رپورٹ پیش نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری

پیر 21 جولائی 2025 21:23

عافیہ صدیقی کیس،وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو رپورٹ پیش نہ کرنے پر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2025ء)اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق کیس میں وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین 2 ہفتوں میں تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس سردار اعجاز اسحق نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے وکیل عمران شفیق اور سابق سینٹر مشتاق احمد عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے رپورٹ پیش نہ کرنے پر وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔

(جاری ہے)

جسٹس سردار اسحٰق نے کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس کی آئندہ سماعت ہو گی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا روسٹر چیف جسٹس آفس ہینڈل کرتا ہے، حکومت نے سپریم کورٹ میں میرے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے۔جسٹس سردار اعجاز اسحق نے کہاکہ جج اگر چاہے بھی تو چھٹیوں میں کام نہیں کرسکتا، میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں، میں نے فوزیہ صدیقی کیس دیگر کیسز کے ساتھ آج مقرر کیاتھا، مجھے جمعرات کو بتایاگیا کہ کازلسٹ جاری نہیں ہوگی، جب تک کازلسٹ میں تبدیلی نہیں کی جاتی، میں نے پرسنل سیکرٹری سے کہاکہ کازلسٹ کے حوالے سے چیف جسٹس کو درخواست لکھو، چیف جسٹس کو درخواست پر دستخط کرنے کے لیے 30 سیکنڈ بھی نہیں ملے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق نے کہاکہ ماضی میں ججز کا روسٹر مخصوص کیسز کے فیصلوں کے لیے استعمال ہو چکاہے، فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اپیل سپریم کورٹ میں مقرر ہے، جج چھٹی کے دن عدالت میں انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھنا چاہتا ہے، ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹیو پاور کو جوڈیشل پاور کے لیے استعمال کیاگیا۔جسٹس سردار اعجاز اسحق نے کہا کہ میں انصاف کو شکست کا سامنا نہیں کرنے دوں گا، ہائیکورٹ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے میں اپنی جوڈیشل پاورز کا استعمال کروں گا، روسٹر تبدیل کرنے کے حوالے سے پرسنل سیکریٹری نے بتایا، میں نے پرسنل سیکریٹری کو کہا چیف جسٹس کو خط بھیج دو کیونکہ آج چند کیسز مقرر تھے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق نے کہا کہ فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کاہے، میں نیکہا تھا رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کروں گا۔وکیل عمران شفیق نے کہاکہ اگرحکومت نے اسٹے لینا ہوتا تو ابھی بینچ بھی بن جاتا، ہمیں معلوم ہے کہ ہائیکورٹ کیسے چل رہی ہے، آپ کا آرڈر موجود ہے، کیس آپ کی عدالت میں آج مقرر ہے۔جسٹس سردار اعجاز اسحق نے کہا کہ معلوم نہیں ابھی تک آپ کا کیس کیسے سپریم کورٹ میں نہیں لگا، وکیل عمران شفیق نے کہاکہ سپریم کورٹ میں کیس نہیں لگیگاکیونکہ وہاں جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں، کیس تب لگیگاجب ججز کا روسٹر تبدیل ہوجائیگا۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا، عدالتی حکم میں وزیراعظم پاکستان سمیت تمام فریقین 2 ہفتوں میں تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود وجوہات عدالت میں جمع نہیں کرائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ عدالت کے پاس وفاقی حکومت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ریمارکس میں کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سے اس ہائیکورٹ میں’ڈیمولیشن اسکواڈ’ کو لایا گیا، ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا، ان حملوں نے انصاف کے نظام کو بار بار زخمی کیا اور اسے تقریباً آخری سانسوں تک پہنچا دیا، نظام انصاف پر حملوں کی آج ایک اور مثال سامنے آئی۔جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے کہاکہ ہائیکورٹ کے ایک جج کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو چیف جسٹس کے دفتر کے زیرِ انتظام ہفتہ وار روسٹر کے ذریعے کنٹرول کیا گیا، یہ صورتحال بیک وقت دل دہلا دینے والی اور مزاحیہ بھی ہے، ایک ایسا تضاد جو اب اس ہائیکورٹ کی پہچان بن چکا ہے۔