اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے لیے الیکٹورل کالج کے عدم تکمیل کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی نہیں تھی۔ سینیٹ انتخابات پر صوبائی حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوئے اور بالآخر گیارہ نشستوں میں 5 اور6 کے فارمولے پراتفاق رائے ہوا اور اسی فارمولے کے تحت الیکشن کرائے گئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ انتخابی نتائج کے مطابق حکمراں جماعت (پاکستان تحریک انصاف) کو چھ جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے پانچ امیداور سینیٹر بن گئے۔
پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات کےاعلان کے ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی میں21 خواتین اور چاراقلیتی نشستیں حزب اختلاف کو ملنے اور حلف برداری کےدوسرے روز پیر کو خیبر پختونخوا اسمبلی بلڈنگ میں سخت ترین سکیورٹی انتظامات میں سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے۔
(جاری ہے)
پولنگ کا عمل ایک گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا جبکہ ووٹنگ کے لیے آخری وقت شام چار بجے کے بجائے ڈیڑھ گھنٹے کا اضافی وقت دیا گیا۔
ڈیڑھ سال تک ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے بعد سینٹ کے نشستوں پراتفاق رائے سے 5 اور 6 کا فارمولہ طے کیا گیا تاکہ الیکشن کے بغیر اپنے نامزد ارکان کو سینیٹ میں نمائندگی دی جائے تاہم پاکستان تحریک انصاف کے بعض اُمیدواروں کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔
کون کون امیدوار کامیاب ہوئے
حکومت اور اپوزیشن کے طے شدہ فارمولے کے تحت سات جنرل نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے چار امیدوار کامیاب ہوئے جن میں مرزا آفریدی کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر پارٹی کے کارکنوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ایک خاتون سمیت پانچ کارکن جن میں سرفہرست ضلع پشاور کے صدرعرفان سلیم شامل تھے نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کرائے تھے اور نام واپس لینے سےانکار کیا۔
تاہم الیکشن سے چند گھنٹے پہلے ان سب نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔پی ٹی آئی کے کامیاب ہونے والے سینیٹرز میں مراد سعید بھی شامل ہیں جو ایک عرصے سے روپوش ہیں۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق انہوں نے جنرل نشست پرسب سےزیادہ ووٹ حاصل کیے ۔
اپوزیشن کی تین جنرل نشستوں پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اورجمیعت علمائے اسلام کا ایک ایک امیدوار کامیاب ہوا۔
اسی طرح خواتین کے نشستوں پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی ایک ایک خاتون کامیاب ہوئیں ۔ صوبائی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ارکان کی تعداد 92 ہے، جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے 53 ارکان ہیں۔سکیورٹی کے سخت ترین اقدامات
خیبر پختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کے انتخابات کے دوران سکیورٹی کے سخت ترین اقدامات کیے گئے تھے۔
پولیس کے چار سو سے زیادہ اہلکار تعینات کئے گئے، جبکہ اسمبلی کے اندر مہمانوں اور میڈیا کا داخلہ بند تھا۔اس دوران بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی اندرجانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پولیس اور اسمبلی کے سکیورٹی اہلکار ہر کسی کی جامہ تلاشی لیتے رہے جبکہ گاڑیوں کی سرچ بھی جاری تھی ۔ سکیورٹی کے موثر اقدات کی وجہ سے انتخابات انتہائی پرامن ماحول میں مکمل کئے گئے۔
سیاسی رہنماؤں کے ردعمل
سابق اسپیکرخیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی نے ووٹنگ سے ذرا پہلے کہا،’’پارٹی سربراہ عمران خان نے جس کسی کو بھی ٹکٹ دیا ہے سب ارکان اسی کو ووٹ دیں گے۔ پی ٹی آئی کے کارکن اور عہدیدار متحد ہیں۔ اگر کسی کا وزیر اعلیٰ یا کسی اور سے اختلاف ہے تو اپنی جگہ لیکن جب عمران خان کی ہدایات آجائے تو سب اسی پر عمل کرتے ہیں۔
اورآپس کے اختلافات ایک طرف رکھتے ہیں۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے نامزد امیدوارکو ووٹ دیں گے اور انہیں کامیاب کریں گے کیونکہ یہ عمران خان کی عزت اور پارٹی کے وقار کی بات ہے جس پر ہم سب متحد اور متفق ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹرعباد اللہ خان کا کہنا تھا ’’ہم نے کوشش کی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں 'ہارس ٹریڈنگ‘ کا راستہ روکیں اور اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا، ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے گئے اور اپوزیشن سمیت حکومتی ارکان اسمبلی نے بھی اس پر عمل کیا اور اپنے نامزد امیدواروں کو ووٹ دیا۔عباد اللہ خان نے حکومتی ارکان کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا، ’’تمام جماعتوں کی تعاون سے صوبے میں جمہوری عمل کو کامیابی سے مکمل کیا گیا۔‘‘
ایک نئی بحث
خیبر پختونخوا اسمبلی کےاسپیکر نے اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے منتخب ارکان سے حلف لینے کیلئے طلب کی گئی اسمبلی اجلاس کو کورم نہ پورا ہونے کی بنیاد پر ملتوی کر دیا تھا۔
جس پر اپوزیشن نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔پشاورہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 255(2) کے تحت گورنر خیبر پختونخوا کو مخصوص نشستوں کے لیے نامزد 21 خواتین اور چار اقلیتی ارکان سے حلف لینے کیلئے خط لکھا۔ تاہم اسپیکر بابر سلیم سواتی نے گورنر کو ارکان اسمبلی سے حلف لینے کیلئے براہ راست خط لکھنے پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کو خط ارسال کر دیا جس سے ایک نئی سیاسی اورآئینی بحث شروع ہو گئی ہے۔
عدالتی عمل داری اوردوسری جانب گورنر کی آئینی ذمہ داریوں سے متعلق سوالات اٹھنے لگے ہیں۔اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے اس خط میں اس اقدام کوعدالتی دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا ہے۔ خط میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ عدالتی فیصلہ ہے اور نہ باقاعدہ عدالتی کاروائی ہوئی ہے۔
خط کے مطابق یک طرفہ ہدایات اور دیگر فریق کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیے بغیر کیا گیا عدالتی فیصلہ، انصاف کے اصولوں اور آئینی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اسمبلی اور اس کے منتخب نمائندوں کے آئینی اختیارات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔‘‘
ادارت: جاوید اختر