اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھارتی کسٹمز کے جن اعداد و شمار کا غور سے مشاہدہ کیا ہے، اس کے مطابق یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کرنے والے کسی بھی ادارے پر پابندیاں عائد کرنے کی امریکی دھمکیوں کے باوجود، ایک بھارتی کمپنی نے دسمبر میں چودہ لاکھ ڈالر مالیت کا دھماکہ خیز مواد روس کو بھیجا۔
جن روسی کمپنیوں نے بھارتی کمپنی سے یہ مواد وصول کیا، ان میں سے ایک کا نام ایچ ایم ایکس یا اکٹوجین ہے اور یہ دھماکہ خیز مواد بنانے کی معروف فیکٹری ہے۔ یوکرین میں سکیورٹی سروس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے اس کمپنی کے ماسکو کی فوج سے تعلقات ہیں۔ اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ یوکرین نے اپریل میں اس فیکٹری کے خلاف ڈرون حملہ بھی کیا تھا۔
(جاری ہے)
دوسری روسی کمپنی ہسپانوی دھماکہ خیز مواد بنانے والی کمپنی 'میکسم' کی ایک ذیلی کمپنی ہے، جو خود نیویارک میں قائم پرائیویٹ ایکویٹی فرم رونی کیپیٹل کے زیر کنٹرول ہے۔
بھارتی کمپنی نے کب اور کیا بھیجا؟
روئٹرز نے دسمبر میں بھارتی فرم 'آئیڈیل ڈیٹونیٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ' کی طرف سے ایچ ایم ایکس کو بھیجی گئی دو کھیپوں کی نشاندہی کی۔
بھارتی کسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں کو سینٹ پیٹرزبرگ میں اتارا گیا تھا اور بھارتی حکومت کے ایک اہلکار نے اس کی تصدیق بھی کی۔روئٹرز نے اسی طرح کی بعض دیگر خرید و فروخت کی بھی نشان دہی کی، جس میں بھارت سے دھماکہ خیز مواد روس بھیجا گیا ہے اور اس کے لیے بھی بھارتی کسٹمز کے بیانات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
امریکی پابندیوں کے باوجود فوجی تجارت
امریکی حکومت نے ایچ ایم ایکس نامی کمپنی کو "روس کی جنگی کوششوں کے لیے اہم" کے طور پر شناخت کیا ہے اور مالیاتی اداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ماسکو کو اس طرح کے مادے کی فروخت میں سہولت فراہم کرنے کے خلاف ہے۔
پینٹاگون کے ڈیفنس ٹیکنیکل انفارمیشن سینٹر اور متعلقہ دفاعی تحقیقی پروگراموں کے مطابق، ایچ ایم ایکس وسیع پیمانے پر میزائل اور ٹارپیڈو وار ہیڈز، راکٹ موٹارز، دھماکے والے پروجیکٹائلز اور جدید فوجی نظاموں کے لیے دھماکہ خیز مواد میں استعمال ہوتا ہے۔
روئٹرز کے پاس اس بات کی جانب کوئی عندیہ بھی نہیں ہے کہ بھارتی کمپنی کی جانب سے ایچ ایم ایکس کی ترسیل نے نئی دہلی کی حکومت کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہو۔
اس کھیپ کے بارے میں علم رکھنے والے ایک بھارتی اہلکار نے بتایا کہ جو مواد بھیجا گیا، اس کمپاؤنڈ میں کچھ محدود سویلین ایپلیکیشنز ہیں اور اس کے علاوہ اس کے معروف فوجی استعمال بھی ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا: "بھارت عدم پھیلاؤ پر اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوہرے استعمال کی اشیاء کی برآمدات کر رہا ہے۔
ایسا مضبوط قانونی اور ضابطہ کار فریم ورک کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جس میں اس طرح کی برآمدات پر متعلقہ معیارات کا ایک جامع جائزہ بھی شامل ہے۔روس کے دفاعی صنعت کار، صدر ولادیمیر پوٹن کی یوکرین کے خلاف جنگ کو برقرار رکھنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔
بھارت نے حالیہ برسوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں، تاہم اس نے ماسکو کے ساتھ اپنے دیرینہ فوجی اوراقتصادی تعلقات کو ترک نہیں کیا ہے۔
روس کے ساتھ بھارت کی تجارت، خاص طور پر روسی تیل کی خریداری، کافی مضبوط رہی ہے، جبکہ مغربی ممالک پابندیوں کے ساتھ روس کی جنگی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی کے اوائل میں دھمکی دی تھی کہ اگر یہ ممالک روسی خام تیل کی خریداری جاری رکھتے ہیں، تو وہ ان پر 100 فیصد ٹیرف لگائیں گے۔"
امریکی محکمہ خارجہ نے روئٹرز کی طرف سے نشاندہی کی گئی مخصوص کھیپوں پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم کہا کہ اس نے بھارت کو بارہا بتایا ہے کہ فوج سے متعلقہ کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کا خطرہ ہے۔
ایک امریکی ترجمان نے کہا، "بھارت ایک اسٹریٹجک پارٹنر ہے، جس کے ساتھ ہم روس کے ساتھ بھارتی تعلقات سمیت، مکمل اور صاف بات چیت میں مشغول ہیں۔"
اہلکار کا مزید کہنا تھا، "ہم نے بھارت سمیت اپنے تمام شراکت داروں پر بارہا واضح کیا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی کمپنی یا مالیاتی ادارہ جو روس کے فوجی صنعتی اڈے کے ساتھ کاروبار کرتا ہے اسے امریکی پابندیوں کا خطرہ ہے۔
"امریکی محکمہ خارجہ نے روسی وصول کنندہ کمپنیوں میں سے ایک میں امریکی اور ہسپانوی فرموں کے مالیاتی اسٹیک کے بارے میں، فالو اپ سوال کا جواب نہیں دیا۔
روس کی وزارت دفاع نے بھی تبصرہ کرنے کی درخواست کا اب تک جواب نہیں دیا۔
یوکرین کے صدارتی مشیر ولادیسلاو ولاسیوک نے روئٹرز کو بتایا، "بھارت عام طور پر پابندیوں کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والے بنیادی دائرہ اختیار میں شامل نہیں ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ الگ تھلگ کیسز ہو بھی سکتے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر