غزہ: موت کے سائے میں خوراک ڈھونڈتے فاقہ کشوں کی کہانی

یو این بدھ 6 اگست 2025 06:30

غزہ: موت کے سائے میں خوراک ڈھونڈتے فاقہ کشوں کی کہانی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اگست 2025ء) غزہ میں خوراک کا حصول اب معمول کا عمل نہیں رہا بلکہ ایک ایسی دوڑ بن گیا ہے جس میں ہر طرف موت کا خطرہ منڈلاتا ہے اور بھوک کی ستائی خواتین اور بچے امداد حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

یو این نیوز کے نمائندے نے بتایا ہے کہ غزہ میں بھوک سے نڈھال ہزاروں مرد، خواتین اور بچے روزانہ خوراک کے حصول کی امید میں نکلتے ہیں۔

جب انہیں امدادی خوراک لانے والے ٹرک دکھائی دیں تو وہ ان کی جانب بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ تاہم ہر کوئی اس قدر خوش قسمت نہیں ہوتا کہ اسے خوراک مل جائے۔ بیشتر لوگوں کی یہ جدوجہد اکارت جاتی ہے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جو خود بھی فاقے کرتی ہیں اور ان کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے پاس غزہ میں ضرورت مند لوگوں کو محفوظ اور باوقار انداز میں خوراک فراہم کرنے کی صلاحیت اور وسائل موجود ہیں۔

تاہم، امداد کی بڑی مقدار غزہ کی سرحدوں سے باہر پڑی ہے جسے علاقے میں لانے کی اجازت نہیں۔ ادارہ اسرائیلی حکام سے غزہ کے راستے کھولنے اور بڑے پیمانے پر خوراک سمیت دیگر امداد کی ترسیل پر حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کہتا چلا آیا ہے۔

UN News
ایک نوجوان فلسطینی جو خوراک کے حصول کی کوشش میں زخمی ہو گیا۔

سر سے گزرتی گولیاں

شمالی غزہ کے علاقے شجاعیہ سے نقل مکانی کرنے والے فیضا الترمیسی نے یو این نیوز کو بتایا کہ خطرہ محض خوراک کے لیے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونے اور افراتفری سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہر فرد فائرنگ کی زد میں بھی ہوتا ہے۔ جب گولی چلتی ہے تو لوگوں کے پاس زمین پر لیٹنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک روز ایسی ہی صورتحال میں وہ 200 سے زیادہ افراد کے ساتھ زمین پر لیٹ گئے۔

اس دوران گولیاں ان کے سروں سے گزر رہی تھیں۔ ایسے میں اگر کوئی اپنا سر اٹھائے تو وہ زندہ نہیں بچ پائے گا۔

سات سالہ محمد مدیریس نے یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ ایک روز قبل اس کے والد فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ انہیں والد کی موت کا غم منانے کا موقع بھی نہیں ملا کہ اب اپنے گھرانے کے لیے خوراک کا بندوبست کرنا انہی کی ذمہ داری ہے۔

لوگوں کے ہجوم میں چلتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ پھیلا کر مٹھی بھر آٹا طلب کرتے ہیں۔

UN News
شمالی غزہ کی خاتون عاصمہ مسعود سارا دن خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھرنے کے بعد خالی ہاتھ لوٹ رہی ہیں۔

خوراک کے لیے جان کا خطرہ

شمالی غزہ سے نقل مکانی کرنے ولی اسما مسعود نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے خوراک حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی اتنی خوراک نہیں ملی جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ ان کے شوہر جسمانی طور پر معذور ہیں اور نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان جیسی بہت سی دیگر خواتین اور بیوائیں بھی اپنے بچوں کو کھانا نہیں دے سکتیں۔

یو این نیوز کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب امدادی ٹرک آتے ہیں تو بعض نوجوان بڑی مقدار میں خوراک لے کر اسے مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے امداد کو منصفانہ طور سے تقسیم کیا جانا چاہیے۔

وہ تجویز دیتی ہیں فون پر تحریری پیغام کے ذریعے امداد تقسیم کی جانی چاہیے تاکہ ہر ضرورت مند اپنے حصے کے مطابق کھانا لے سکے۔

قبل ازیں اس طریقہ کار کے ذریعے سبھی کو کامیابی سے امداد مہیا کی جاتی رہی ہے۔

غزہ میں امداد کی تقسیم کے موجودہ نظام میں بیوائیں، خواتین، معمر افراد اور دیگر کمزور لوگ خوراک کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں جن میں مقبولہ ادس بھی شامل ہیں جنہیں اپنے زخمی شوہر اور بیٹے کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر زخمی ہو گئے ہیں اور چل پھر نہیں سکتے۔

ان کی تین بیٹیاں بھی ہیں جن کی کفالت انہی کے ذمے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خدا کے سوا ان کا کوئی سہارا نہیں۔ انہیں روزانہ خوراک کے حصول کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا گھرانہ موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔

UN News
خوراک کے حصول میں مارے جانے والے 7 فلسطینیوں کی لاشیں ریڑھے پر رکھ کر لائی جا رہی ہیں۔

گدھا گاڑیوں پر لاشیں

یو این نیوز کے نمائندے نے بتایا کہ انہوں نے امداد کی تقسیم کے مقام پر ایک گدھا گاڑی دیکھی جس پر بہت سی لاشیں رکھی تھیں۔ ان کی تعداد تقریباً سات تھی اور یہ لوگ خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔

شمالی غزہ میں جب بعض نوجوان آٹے کے تھیلے کمر پر اٹھائے جا رہے تھے تو اسی وقت ایمبولینس گاڑیاں زخمیوں کو اٹھا رہی تھیں۔

ان میں ایک نوجوان خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں سر پر گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو خوراک تک رسائی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔

قحط کا خطرہ

غذائی تحفظ کے ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں قحط پھیلنے کا شدید خطرہ ہے جہاں لوگوں کو میسر خوراک اور غذائیت کی مقدار حالیہ جنگ کے عرصہ میں کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، بھوک اور غذائی قلت کے باعث علاقے میں کم از کم 147 اموات ہو چکی ہیں جن میں 88 بچے بھی شامل ہیں۔ بچوں میں شدید غذائی قلت کے 28 ہزار سے زیادہ کیس سامنے آئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ سیکڑوں لوگ خوراک کے حصول کی کوشش میں امدادی مراکز اور امدادی ٹرکوں کے راستوں میں فائرنگ اور گولہ باری سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

UN News
غزہ میں بچوں، معمر و جسمانی معذور افراد، بیماروں اور زخمیوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد غذائی قلت اور بھوک سے ہلاک ہو رہی ہے۔

منصفانہ امدادی نظام کا مطالبہ

چھ بچوں کی بیوہ ماں انام سیام کہتی ہیں کہ ان کا ایک بچہ زخمی ہے۔ وہ ہر روز موت کا سامنا کرتے ہوئے خوراک کے حصول میں نکلتی ہیں۔ راستے میں انہیں ہلاک اور زخمی لوگ دکھائی دیتے ہیں۔

وہ سوال کرتی ہیں کہ امداد گوداموں میں کیوں نہیں لائی جاتی اور اسے تحریری پیغامات کے ذریعے کیوں تقسیم نہیں کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ہلاک ہو گئیں تو ان کے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔

غزہ میں ان جیسی ہزاروں خواتین کو ایسے ہی حالات درپیش ہیں۔ وہ تحفظ، امن اور ایسا منصفانہ نظام چاہتی ہیں جس میں ہر ضرورت مند کو خوراک میسر آئے۔