عدم برداشت کے خاتمے کے لئے ہمیں کوالٹی انٹرٹینمنٹ کے فروغ پر توجہ دینا ہوگی، صحافیوں سے پرانا رشتہ ہے، صحافیوں سے ہونے والی ناانصافی کا ازالہ ہونا چاہئے، وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو

جمعرات 7 اگست 2025 00:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 اگست2025ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد فلم کی درآمد اور سرٹیفیکیشن کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، پی ٹی وی سپورٹس نے ایشیاء کپ کے دو سال کے رائٹس حاصل کرلئے ہیں، پی ٹی وی ہوم کو آئوٹ سورس کرنے پر کام کر رہے ہیں، پی ٹی وی ورلڈ کو از سر نو فعال اور جدید تقاضوں کے مطابق ری ویمپ کیا جا رہا ہے، صحافیوں سے پرانا رشتہ ہے، صحافیوں سے ہونے والی ناانصافی کا ازالہ ہونا چاہئے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی سینیٹر علی ظفر کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں موشن پکچر (ترمیمی) بل 2024ء، صحافیوں کی شکایات، پیکا ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تعداد، پی ٹی وی کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز کی ادائیگی میں مسائل سمیت دیگر ایجنڈا آئٹم زیر بحث آئے۔

کمیٹی نے 24 اپریل 2024ء کو سینیٹ کے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے پیش کردہ ”دی موشن پکچر (ترمیمی) بل 2024ء پر تفصیلی بحث کی۔ اجلاس کے دوران کمیٹی نے بل کے تحت مجوزہ بورڈ کو مخصوص اختیارات دینے یا نہ دینے پر غور کیا۔ موشن پکچر (ترمیمی) بل 2024ء کے بارے میں کمیٹی کو وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے بتایا کہ کسی بھی فلم کی سرٹیفیکیشن کیلئے ضروری عوامل ہوتے ہیں، اگر ہر مرتبہ کابینہ نیا سینسر بورڈ تشکیل دے اور اس پر طویل بحث ہو تو ہماری فلم انڈسٹری کے معاملات تاخیر کا شکار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں فلم سرٹیفیکیشن بورڈ کی منظوری کا اختیار متعلقہ وزیر کو ہوگا تاکہ فیصلہ سازی میں تاخیر نہ ہو۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد فلموں کی درآمد اور سرٹیفیکیشن کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، فلم کی سرٹیفیکیشن کے لئے پورے ملک کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کردار صرف فلم کی درآمد تک محدود ہے جبکہ صوبے اپنی الگ قانونی سازی کے تحت سرٹیفیکیشن کرتے ہیں۔

اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ کوآرڈینیشن ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فلموں نے کینیڈا سمیت کئی ممالک میں ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ وزارت ایسی فلموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے، ایسے میں ہمیں کوالٹی انٹرٹینمنٹ کے فروغ پر توجہ دینا ہوگی تاکہ معاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ ملے۔

غور و خوض کے بعد کمیٹی کے چیئرمین نے سفارش کی کہ متعلقہ ترامیم کے مسودہ بل کو شامل کیا جائے اور آئندہ اجلاس کے جائزہ کے لئے مزید غور کے لئے کمیٹی کے پاس واپس لایا جائے۔ کمیٹی نے سینسر بورڈ کے ایجنڈے کی منظوری بھی دی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے قائمہ کمیٹی کو نیووٹیک کی بحالی کی تجویز بھی دی جسے کمیٹی نے منظور کرلیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے پاکستان ٹیلی وہژن (پی ٹی وی) کے ملازمین کی تاخیر سے تنخواہوں اور پنشن کے دیرینہ معاملے پر بحث کی۔

پی ٹی وی کے حوالے سے ایجنڈا آئٹم پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی وی سکرین میں بہتری لائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس نے ایشیاء کپ کے دو سال کے رائٹس حاصل کرلئے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی وی سپورٹس کو مزید بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پی سی بی سے جی ٹو جی معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی وی ہوم کو آئوٹ سورس کرنے پر کام کر رہے ہیں، پی ٹی وی ورلڈ کو از سر نو فعال اور جدید تقاضوں کے مطابق ری ویمپ کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایا کہ سبسڈی کی واپسی سے پی ٹی وی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی سی سی کی ادائیگیاں زیر التوا تھیں، ہم نے مشکلات کے باوجود آئی سی سی کے رائٹس حاصل کئے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بین الاقوامی میچ ناظرین کو نہ دکھائے جائیں۔

پی ٹی وی نیشنل براڈ کاسٹر ہے، صحرائوں سمیت دور دراز علاقوں میں پی ٹی وی کرکٹ میچ دکھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس کی ریٹنگ نجی چینلز کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی میں میرٹ پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، پنشنرز اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نجی ٹی وی چینلز میں تین تین ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔

پی ٹی وی کے حکام نے کیٹی کو بتایا کہ تنخواہوں اور پنشن کی بتدریج ادائیگی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ٹی وی کا سالانہ خرچہ 8.8 ارب روپے ہے۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی علی ظفر نے آئندہ اجلاس میں پی ٹی وی کے مالی معاملات کے حوالے سے وزارت خزانہ کے حکام کو طلب کرلیا۔ شالیمار ریکارڈںگ کمپنی کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس آر بی سی کے ملازمین کو حال ہی میں تین ماہ کی تنخواہیں ادا کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود ہائی کورٹ میں پیش ہو کر ایس آر بی سی کی بحالی کی استدعا کی، ایس آر بی سی کا بزنس پلان تیار کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے وزارت اطلاعات اور وزارت داخلہ کے حکام سے پیکا ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تعداد اور نوعیت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی جس میں صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز، ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس پر خصوصی توجہ دی گئی۔

وزارت داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں پیکا ایکٹ کے تحت 689 ایف آئی آرز درج ہیں جن میں صحافیوں کے خلاف درج 9 ایف آئی آرز بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ نو صحافیوں میں سے ایک کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ سات ملک سے باہر ہیں۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ صحافیوں کے خلاف درج ایف آئی آرز کی تفصیل اور اس کی مکمل وجہ آئندہ اجلاس میں فراہم کی جائے۔

کمیٹی نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آرز اور گرفتاریوں کے حوالے سے میڈیا کے بڑھتے ہوئے خدشات دور کرنے کے لئے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 15 جولائی 2025ء کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر عرفان الحق صدیقی کی جانب سے اٹھائے گئے ”صحافیوں کی شکایات“ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے نکتہ پر بحث کرتے ہوئے کمیٹی نے پولیس کی جانب سے میڈیا پرسنز کے ساتھ بدسلوکی پر تشویش اور ناراضگی کا اظہار کیا۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کمیٹی نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کو سفارش کی کہ وہ صحافیوں، پنجاب پولیس سمیت متعلقہ پولیس افسر اور سینئر پولیس افسر سے ملاقات کریں اور صحافیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے مسئلے کو حل کریں اور خوش اسلوبی سے حل نکالیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ پرانا رشتہ ہے، پی ایف یو جے کے صدرافضل بٹ سے اس معاملے پر بات ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے، اس معاملے کو سنا جائے، تمام تفصیلات آ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جن صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ ہونا چاہئے۔ کمیٹی نے میڈیا کمیونٹی کو بھی مشورہ دیا کہ وہ تعمیری انداز میں مشغول ہوں اور متعلقہ اجلاسوں میں شرکت کریں تاکہ اس مسئلے کے باہمی متفقہ حل کے لئے کام کیا جا سکے۔

کمیٹی نے میڈیا پرسن کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے سوال کیا کہ متعلقہ افسر طلب کئے جانے کے باوجود کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں کیوں ناکام رہا، اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے مسائل کو بلاتاخیر حل کیا جانا چاہئے۔ معاملے پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کمیٹی نے ملوث افسر کو معطل کرنے کی سفارش کی اور اس کے خلاف باقاعدہ انکوائری شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

کمیٹی نے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور حکام پر زور دیا کہ وہ ایسے معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ سنبھالیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر عرفان الحق صدیقی، سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر جان محمد بلیدی، سینیٹر سرمد علی، سینیٹر سید وقار مہدی، وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات عنبرین جان، ایڈیشنل سیکرٹری اشفاق خلیل کے علاوہ وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ کے سینئر حکام نے شرکت کی۔