
بھاری بلوں کے وصولی کے باوجودپاورکمپنیوں نے سوئی نادرن کے76ارب سے زیادہ واجبات ادانہیں کیئے
پاور سیکٹر کے ذمے واجبات غیر معمولی طور پر بڑھنے کے باعث کمپنی شدید مالی بحران سے دوچار ہے. سوئی ناردرن گیس پائپ لائنزکمپنی
میاں محمد ندیم
ہفتہ 9 اگست 2025
14:19

(جاری ہے)
840 ارب روپے، جی ٹی پی ایس شاہدرہ پر 21 کروڑ 40 لاکھ روپے، ایس پی ایس فیصل آباد پر 8 کروڑ 60 لاکھ روپے، این جی پی ایس ملتان پر 5 کروڑ 60 لاکھ روپے، کرائے کے بجلی گھر بھکی پر 11 کروڑ 60 لاکھ روپے اور کرائے کے بجلی گھر شرقپور پر 16 کروڑ 10 لاکھ روپے واجب الادا ہیں.
یہ تمام واجبات ملا کر واپڈا کے بجلی گھروں پر کل 50.431 ارب روپے بنتے ہیں جن میں 18.119 ارب روپے متنازعہ گیس چارجز، 54 کروڑ 20 لاکھ روپے گیس چارجز، اور 31.462 ارب روپے گیس چارجز پر لیٹ پیمنٹ سرچارج (LPS) شامل ہیں. نجی پاور پلانٹس میں کیپکو کے ذمے 2.253 ارب روپے، اینگرو انرجی پر 42 کروڑ 40 لاکھ روپے، لبرٹی پاور پر 16.397 ارب روپے، اورینٹ پاور پر 1.441 ارب روپے، ایف کے پی سی ایل پر 90 کروڑ روپے، سفائر پاور پر 40 کروڑ 90 لاکھ روپے، سیف پاور پر 31 کروڑ 30 لاکھ روپے، ڈیوِس انرجن پر 8 کروڑ 80 لاکھ روپے اور ایم/ایس ہلمور پاور پر بھی 8 کروڑ 80 لاکھ روپے واجب الادا ہیں. ایس این جی پی ایل کے مطابق، کیو اے ٹی پی ایل پر 3.441 ارب روپے، این پی پی ایم سی (بلوکی) پر 6 کروڑ 90 لاکھ روپے اور این پی پی ایم سی ایل (ایچ بی ایس) پر 26 کروڑ 90 لاکھ روپے کے واجبات ہیں، یوں سرکاری ملکیتی بجلی گھروں پر کل 3.779 ارب روپے واجب الادا ہیں. گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر (واپڈا، آئی پی پیز اور جی پی پیز) کے ذمے 76.523 ارب روپے کے یہ واجبات سی پی پی اے جی کی جانب سے فنڈز کی محدود فراہمی کے نتیجے میں جمع ہوئے ہیں ان میں سے 27 کروڑ 70 لاکھ روپے منقطع شدہ واپڈا کے کرائے کے بجلی گھروں (بھیکی اور شرقپور) اور 8 کروڑ 80 لاکھ روپے منقطع شدہ آئی پی پی، ڈیوس انرجن پر واجب الادا ہیں. کمپنی نے مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سی پی پی اے جی سے درخواست کی ہے کہ واپڈا، آئی پی پیز اور جی پی پیز کو جلد فنڈز جاری کیے جائیں تاکہ وہ ایس این جی پی ایل کو واجبات ادا کر سکیں اور کمپنی اپنے گیس فراہم کنندگان سے کیے گئے وعدے پورے کر سکے دوسری جانب ماہرین نے معاملے کی تحقیقات اور آڈٹ کا مطالبہ کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ سوئی نادرن کے دعوے کے پیش نظرحکومت کو اس معاملے کی تحقیقات اور آزدانہ آڈٹ کروانا چاہیے کیونکہ ماضی میں حکومت ایسے واجبات کی وصولی کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بوجھ صارفین پر لاد دیتی ہے. انہوں نے کہا کہ پاور کمپنیاں کاروباری ادارے ہیں اور وہ بجلی پیدا کرنے کے پیسے وصول کرتے ہیں جبکہ حکومت صارفین سے بھاری ٹیکسوں کے ساتھ کئی گنا قیمت بڑھا کر صارفین کو بجلی بیچتی ہے صارفین سے ہرماہ فیول سمیت ہر قسم کے اضافی سرچارج وصول کیئے جاتے ہیں تو گیس کمپنی کو ادائیگیاں کیوں نہیں گئیں؟. انہوں نے کہا کہ تیل اور دیگر اقسام کے فیول پر چلنے والے پاور پروڈیکشن پلانٹس بھی فیول سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے واجبات ادا نہیں کرتے جس کا حل حکومت نے بجلی‘گیس ‘تیل کی قیمتیں اور ٹیکس بڑھانے میں رکھا ہوا ہے جس سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے ‘انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاور سیکٹر میں حکومت دنیا کا سب سے انوکھا کاروبار کررہی ہے جس میں صارفین بجلی کی قیمت کے ساتھ بجلی پیدا کرنے میں استعمال ہونے والے فیول‘سپلائی کمپنیوں کے نقصانات‘خسارہ ‘پاور کمپنیوں کے بنکوں سے حاصل کردہ قرضوں پر سود سمیت ہر چیزکی ادائیگی کرتے ہیں . انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہوتا جس کے بنیادی فرائض میں شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اس پر اعلی عدالتیں اور متعلقہ سرکاری ادارے دہائیوں سے خاموش تماشائی کا کردار ادکررہے ہیں حالانکہ اعلی عدلیہ ‘حکومتوں اور سرکاری اداروں کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے شہری بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر یہ ادارے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی بجائے ان کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں. ماہرین کے نزدیک پاکستانی شہری مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں تین سال کی قیل مدت میں 150فیصد سے زیادہ اضافے سے بدترین معاشی بوجھ کے نیچے دب چکے ہیں بجلی‘گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ایسے میں حکومت ‘اعلی عدلیہ اور طاقتور حلقوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے سندھ‘پنجاب‘کے پی کے‘بلوچستان اور کشمیر سمیت دوردارزکے علاقوں میں سیاسی جماعتیں ووٹ بنک کے لیے بجلی اور گیس کی چوری کو تحفظ فراہم کرتی ہیں جس کا بوجھ بڑے شہروں کے صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے جہاں چوری نہ ہونے کے برابر ہے سندھ اور پنجاب کے متعدد دیہی علاقوں میں میٹرکا تصور تک نہیں ہے بڑی سیاسی جماعتیں اور خاندان اپنے ووٹ بنک کے لیے ان علاقوں سے بلوں کی وصولی کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے بڑے شہروں کے صارفین پر بوجھ ڈال دیتے ہیں . رپورٹ کے مطابق سندھ کے ضلع لاڑکانہ سمیت اندورن سندھ میں کھلے عام مستقل طور پر ڈائریکٹ کنکشن لگے ہیں اور بل کے نام پر پاورسپلائی کمپنیوں کے ملازمین فی کنکشن چند ہزار روپے ماہانہ رشوت وصول کرتے ہیں کراچی اور حیدرآبادمیںدہائیوں تک ایک سیاسی جماعت ڈائریکٹ کنکشن دے کر جماعت کے چندے کے نام پر بل وصول کرتی رہی ہے اسی طرح پنجاب کے دیہی علاقوں میں طاقتور سیاسی خاندانوں کی ملکیت ملیں تک سپلائی کمپنیوں کی ملی بھگت سے بجلی اور گیس کے ڈائریکٹ کنکشن استعمال کرتی ہیں جس کی قیمت بڑے شہروں میں باقاعدگی سے بل اداکرنے والے صارفین کو اداکرنی پڑتی ہے.
مزید اہم خبریں
-
آزاد اداروں کو طیاروں کا انوینٹری ریکارڈ دکھائیں، وزیردفاع کا انڈین ایئرچیف کے دعوے پر بھارت کو چیلنج
-
سابق وزیراعظم نے تحفے میں ملاسونَے کا لوٹا پیتل سے تبدیل کیا،فیاض چوہان کے سنگین الزامات
-
9 مئی کے 8 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت کی اپیلیں سماعت کیلئے مقرر
-
وزیراعلیٰ مریم نوازکا ڈومیلی اور پسرور میں برساتی نالوں میں ڈوبنے سے دو بچو ں کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ کا اظہار
-
شہباز شریف جیسی قومی قیادت ،جنرل عاصم منیر جیسی عسکری قیادت میسر ہونا خوش قسمتی ہے ‘ مجتبیٰ شجاع الرحمن
-
زائرین کے لئے راستہ سیکیورٹی وجوہات پر عارضی طور پر بند کیا ہے ، گورنرسندھ
-
صدرِ مملکت کا ژوب میں 14 بھارتی حمایت یافتہ خوارج کے خاتمے پر سیکیورٹی فورسز کو زبردست خراجِ تحسین
-
محسن نقوی کا فتنہ الہندوستان کے مزید 14 دہشتگردوں کو جہنم واصل کرنے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
-
وزیراعظم سے عبد المالک بلوچ کی ملاقات ،مختلف امورپر غور
-
شیری رحمن نے کشمیریوں کی تاریخی و مزاحمتی کتابوں پر مودی سرکار کی پابندی کو فسطائیت کی بدترین مثال قرار دیدیا
-
وزیراعظم فتنہ الخوارج کے 47 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
-
بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود اولین ترجیح ہے ،شہبازشریف
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.