اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اگست 2025ء) زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس کا صرف 0.5 فیصد تازہ پانی ہی قابل استعمال ہے، جو پینے، دھونے اور فصلوں کی آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی طلب اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے منسلک گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے یہ وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں دو ارب افراد کو باقاعدہ صاف پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، جبکہ نصف عالمی آبادی سال کے کچھ حصے میں پانی کی کمی کا شکار رہتی ہے۔
زرعی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ، توانائی کی صلاحیت میں کمی اور ناقص صفائی سے متعلق صحت کے اخراجات کی وجہ سے پانی کی کمی معاشی طور پر مہنگی ثابت ہو رہی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق 2023ء میں تازہ پانی کے فعال ماحولیاتی نظام کی معاشی قدر کا تخمینہ 58 ٹریلین ڈالر (49.4 ٹریلین یورو) لگایا گیا، جو عالمی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 60 فیصد ہے۔
(جاری ہے)
'فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے‘
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر اور یونیسکو چیئر ان واٹر اکنامکس، کوئنٹن گرافٹن نے بتایا کہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں خشک سالی سے متاثرہ ممالک میں اگلے 20 سے 30 برسوں کے دوران پانی کی شدید کمی کی وجہ سے معیشت میں 25 فیصد کمی متوقع ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ خوراک کی درآمدات اور پانی کی کمی کو کم کرنے کے لیے ڈیموں جیسے بڑے بنیادی ڈھانچے کے لیے کم وسائل ہوں گے۔
گرافٹن نے خبردار کیا، ''یہ فیصلہ کن وقت ہے۔ ہمیں پانی کی کمی سے معیشتوں کو ہونے والے نقصان سے نمٹنے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘پانی کی کمی کے نتائج
پانی کی کمی سے خوراک کی سپلائی، معاشی سرگرمیاں اور روزگار متاثر ہوتا ہے، جس سے سماجی اور سیاسی بدامنی، بشمول انقلابات جنم لے سکتے ہیں۔ نقل مکانی اور بڑے پیمانے پر ہجرت ایک ممکنہ نتیجہ ہے، جو جنوبی یورپ جیسے علاقوں میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے، جہاں صحرائی علاقوں سے لوگ بحیرہ روم عبور کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ اس لیے بھی شدید ہے کیونکہ حل کے لیے بڑی مالی سرمایہ کاری درکار ہے۔ تازہ پانی کے متنوع ماحولیاتی نظام خشک سالی کی شدت اور مدت کو کم کر سکتے ہیں لیکن ترقی اور زیادہ آبپاشی کی وجہ سے یہ متنوع نظام ختم ہو رہے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 1970ء سے اب تک دنیا نے اپنے ایک تہائی 'ویٹ لینڈز‘ کھو دیے ہیں، جن کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں واٹر ایمرجنسی کا الارم بجنے کو ہے
پانی کا بحران ترقی پذیر معیشتوں کی ترقی کو بھی سست کر رہا ہے۔ گرافٹن کے مطابق بھارت کے پاس، جو دنیا کی 18 فیصد آبادی کے ساتھ صرف چار فیصد تازہ پانی رکھتا ہے، اپنے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو برقرار رکھنے کے لیے کافی پانی نہیں ہے۔ بھارت کے یہ بجلی گھر تیزی سے معاشی ترقی اور غربت میں کمی کا باعث بنے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''بھارت کا ہدف سات فیصد ترقی ہے لیکن یہ ایک خیالی بات ہے۔ پانی کافی نہیں ہے۔‘‘ بھارت کے دیہی غریب پانی کی کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ زیر زمین پانی کی زیادہ کھپت ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ واٹر ٹیبل کم ہو رہا ہے۔
زرعی پیداوار پر اثرات
گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے دریاؤں کا بہاؤ کم ہو رہا ہے جبکہ جھیلیں بھی خشک ہو رہی ہیں۔
اس عمل نے ہائیڈرولوجیکل سائیکل کو متاثر کیا ہے، جس کے تحت پانی بخارات بن کر بارش کی شکل میں واپس آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مٹی کی نمی اور غذائیت مستقل طور پر کم ہو گئی ہے، جس سے ایشیا اور افریقہ کی معیشتوں کی بنیاد زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔سن 2020ء سے 2023ء کے دوران قرن افریقہ 'ہارن آف افریقہ‘ میں شدید خشک سالی، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 100 گنا زیادہ رہی، کے نتیجے میں 13 ملین مویشی ہلاک ہوئے، فصلیں تباہ ہوئیں اور کم از کم 20 ملین افراد کو شدید غذائی قلت اور روزگار کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
واٹر پروجیکٹ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے مطابق سب صحارا افریقہ میں پانی جمع کرنے کے کام پر سالانہ 40 ارب گھنٹے صرف ہوتے ہیں، جو آمدنی پیدا کرنے یا تعلیم حاصل کرنے میں استعمال ہو سکتے تھے۔
یورپ میں پانی کی کمی کا مسئلہ
یورپی ممالک میں بھی پانی کی کمی بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ براعظم انٹارکٹیکا کے بعد کسی بھی دوسرے براعظم سے زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔
سن 2024 یورپ کا اب تک کا سب سے گرم سال تھا جبکہ جرمنی نے اس سال کے شروع میں اپنا سب سے خشک موسم سرما اور بہار دیکھا۔ برطانیہ سے وسطی یورپ تک خشک سالی پھیلی، جبکہ بحیرہ روم کے ممالک مسلسل شدید گرمی، جنگلاتی آگ اور پانی کی کمی کا شکار ہیں۔کشمیر: ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والا بحران اور پانی کا مرثیہ
یورپی انوائرنمنٹ بیورو کے واٹر مینجمنٹ ماہر سرجیز موروز کہتے ہیں کہ محدود پانی کے وسائل کے لیے صنعتوں کے درمیان مقابلہ بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا، ''آئی ٹی سیکٹر اچانک برسلز آ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہمیں ترقی کے لیے بہت زیادہ اعلیٰ معیار کے پانی کی ضرورت ہے۔ کسان کہہ رہے ہیں کہ ہم بغیر پانی کے خوراک نہیں اگا سکتے۔‘‘یورپی یونین آئی ٹی ڈیٹا سینٹرز کے لیے پانی کے بھاری استعمال سے نمٹ رہی ہے، جن کے کولنگ سسٹمز واٹر انٹینسو ہیں جبکہ یہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور اے آئی کے ساتھ تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
یورپی یونین کی واٹر ریزلیئنس اسٹریٹجی، جو 2026 میں نافذ ہو گی، ٹیک کمپنیوں کے لیے استعمال کی حدود عائد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔انگلینڈ میں موسمیاتی تبدیلیاں، آبادی میں اضافہ اور ماحولیاتی دباؤ کی وجہ سے 2055ء تک پانی کی کمی ہو گی، جو برطانیہ کے موجودہ روزانہ استعمال کا ایک تہائی ہے۔ ملک کا زیادہ گنجان آباد جنوب مشرقی علاقہ سب سے بڑی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
یو کے انوائرنمنٹ ایجنسی کے چیئرمین ایلن لوویل کہتے ہیں، ''ملک کے پانی کے وسائل پر بہت زیادہ اور مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ ہے اور یہ کمی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ غذائی پیداوار کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔‘‘امریکہ کے لیے بھی مسائل
امریکہ میں بھی پانی تک محدود رسائی والے علاقے معاشی نقصانات برداشت کر رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کی غیر منافع بخش تنظیم ڈگ ڈیپ کے 2022ء کے مطالعے کے مطابق پانی اور صفائی تک ناکافی رسائی والے گھرانوں کو صحت کی دیکھ بھال، کاموں اور اسکولوں میں پیداواری صلاحیت کے نقصان کی وجہ سے اوسطاً سالانہ 15,800 ڈالر زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
ڈگ ڈیپ کے بانی اور سی ای او جارج میک گرا کہتے ہیں، ''موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق واقعات کے دباؤ کی وجہ سے پانی تک محدود رسائی والے افراد کی تعداد بڑھنے کی توقع ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ امریکی معیشت کو ان جھٹکوں سے بچانے کا سب سے آسان طریقہ پانی تک عالمی رسائی کو یقینی بنانا ہے، جس میں ''سمارٹ، پائیدار آن اینڈ آف گرڈ واٹر سسٹمز‘‘ میں سرمایہ کاری شامل ہے، نہ کہ پرانے واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹمز، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ادارت: افسر اعوان