ایس سی او کے سربراہی اجلاس کے بعد نئے عالمی نظام کے خد و خال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں،سردار مسعود خان

اب یہ تقریباً طے ہے دنیا کے فیصلے محض امریکہ یا یورپ کے چند ممالک نہیں بلکہ کثیر الجہتی اتفاق رائے کے ذریعے ہوں گے،سابق صدرآزادکشمیر

اتوار 7 ستمبر 2025 14:35

اسلا م آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 ستمبر2025ء)آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ و چین میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے بعد نئے عالمی نظام کے خد و خال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب یہ تقریباً طے ہے کہ دنیا کے فیصلے محض امریکہ یا یورپ کے چند ممالک نہیں بلکہ کثیر الجہتی اتفاق رائے کے ذریعے ہوں گے، جن میں یوریشین بلاک نمایاں حیثیت اور کلیدی کردار ادا کرے گا۔

مختلف ٹی وی چینلز کو دیے گئے انٹرویوز میں سردار مسعود خان نے کہا کہ ایس سی او کے رکن ممالک نے بیجنگ میں جمع ہوکر ایک جانب چین کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا اور اس کی قیادت کو تسلیم کیا اور دوسری جانب چین نے 3 ستمبر کو ملٹری پریڈ کے ذریعے عسکری طاقت کا مظاہرہ کر کے یہ باور کرا دیا کہ وہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر معیشت، عسکریت اور سفارت میں برتری رکھتا ہے یا برتری کے قریب ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگرچہ بیجنگ کی پریڈ کی علامتی اہمیت یہ تھی کہ چین نے کس طرح 80 برس قبل جاپان اور محوری فاشسٹ طاقتوں کو شکست دی تھی، تاہم اس موقع پر صدر شی جن پنگ نے یہ پیغام بھی دیا کہ چین کسی سے خوفزدہ نہیں اور اگر اس پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔امریکہ اور یورپ کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں سوال پر سردار مسعود خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلے ہی ردعمل آچکا ہے، جس میں انہوں نے طنز و استہزاء کا بھی سہارا لیا اور کہیں صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن کو اپنا دوست قرار دیا، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ یہ سب مل کر امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔

یورپی ممالک کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ چین کے خلاف کسی کھلے ردعمل کی پوزیشن میں اس لیے نہیں ہیں کہ ان کے خود امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ چین کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات اور مفادات وابستہ ہیں، لہٰذا یورپ آسانی سے چین کو ہدف تنقید نہیں بنا سکتا۔سردار مسعود خان کے مطابق مغرب اس حقیقت کا ادراک کر چکا ہے کہ چین نے جس فوجی ساز و سامان کی نمائش کی وہ نہ صرف اعلیٰ معیار اور جدت کا حامل ہے بلکہ اس کے کئی پہلو حیران کن بھی ہیں۔

ان میں فضا، سمندر اور زمین سے داغے جانے والے ایٹمی ہتھیار، لیزر ہتھیار، چار ٹانگوں والے ڈرونز، بڑے زیر آب ٹارپیڈو نما ڈرونز، اینٹی ڈرون لیزرز اور ’’روبوٹ بھیڑیے‘‘ شامل ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے یہ بھی واضح کردیا کہ نہ صرف عالمی طاقتیں چین کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ چین اپنا دفاع کرنے کی بھی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ایک سوال پر کہ آیا ایس سی او بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات طے کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ فورم یا یوں کہیں کہ چین دونوں ممالک کو دوطرفہ سطح پر بات چیت کا مشورہ دے سکتا ہے۔

جس طرح مئی 2025 کی جنگ کے دوران بھی چین نے بھارت اور پاکستان دونوں پر زور دیا تھا کہ جنگ بندی کریں اور مذاکرات سے مسائل حل کریں۔ اسی طرح روس کا بھی بھارت پر اثر و رسوخ ہے اور اس نے اس جنگ میں غیرجانبداری دکھائی تھی بلکہ روسی وزیر خارجہ نے جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ تاہم بھارت کسی تیسرے فریق یا ملک کی ثالثی قبول کرنے کو تیار نہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ جب بھارت اور پاکستان ایس سی او میں شامل ہورہے تھے تو بانی ممالک کی سب سے بڑی جھجک یہی تھی کہ یہ دونوں کہیں اپنے تنازعات اس فورم پر لاکر تنظیم کو غیر فعال نہ کردیں۔ اسی لیے احتیاط برتی جارہی ہے۔سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکہ سے تعلقات خراب ہونے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عجلت میں بیجنگ گئے، جو سات برسوں میں ان کا پہلا دورہ تھا۔ بھارت نہ صرف چین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی بھی تگ و دو میں ہے۔ ان کے بقول بھارت کی ان سرگرمیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ امریکہ کو یہ پیغام دے کہ اس کے پاس امریکہ کے علاوہ دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔