ور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 ستمبر2025ء)بھارت نے ایک بار پھر پاکستان سے سفارتی سطح پر رابطہ کرتے ہوئے دریائے ستلج میں ہریکے اور فیروز پور کے مقامات پر اونچے درجے کے سیلاب سے متعلق آگاہ کردیاہے۔ بھارتی حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ستلج میں مزید پانی چھوڑا جا رہا ہے جس کے باعث ملحقہ اضلاع اور دیہات شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس اطلاع پر وزارتِ آبی وسائل نے فوری طور پر 28 متعلقہ محکموں کو انتباہی خط جاری کر دیا ہے۔ملک بھر میں مون سون کے دسویں سپیل کے باعث سیلابی صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا ہ کے مختلف علاقوں میں دریاں، ندی نالوں اور بیراجوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کے سبب نشیبی علاقے زیر آب آ چکے ہیں جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
پی ڈی ایم اے نے پنجاب میں ممکنہ سیلاب کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ پاک فوج، سول انتظامیہ اور دیگر ادارے مکمل الرٹ ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے مطابق تریمو ہیڈورکس پر پانی کا بہائو آئندہ چند گھنٹوں میں 5 لاکھ 90 ہزار کیوسک تک پہنچ سکتا ہے، جبکہ ہیڈ پنجند پر 24 گھنٹوں میں 6 لاکھ 50 ہزار کیوسک کا ریلا متوقع ہے۔
ملتان میں آئندہ 72 گھنٹوں تک سیلابی کیفیت برقرار رہنے کا امکان ہے، جبکہ گڈو بیراج پر بہا ئو7 سے ساڑھے 7 لاکھ کیوسک تک پہنچ سکتا ہے۔دوسری جانب پنجاب کے مختلف علاقوں میں دریائے چناب اور ستلج میں طغیانی کے باعث شہری اور دیہی آبادیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔حفاظتی بند ٹوٹنے کے بعد پانی بستیوں میں داخل ہو چکا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
دولت پور بائی پاس کے مقام پر بھی کئی بند ٹوٹ گئے، جس سے درجنوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق تربیلا ڈیم مکمل طور پر بھر چکا ہے، منگلا ڈیم 87 فیصد جبکہ بھارت کے بھاکڑا، پونگ اور تھین ڈیم 90 فیصد سے زائد بھر چکے ہیں، جس سے اضافی پانی چھوڑنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
بہاولنگر کی ستلج بیلٹ کے 160 کلومیٹر طویل علاقے میں کئی مقامات پر عارضی بند ٹوٹ چکے ہیں، جس سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین زیر آب آ چکی ہے۔ منچن آباد، بہاولنگر اور چشتیاں کے متعدد دیہات شہروں سے کٹ چکے ہیں۔ چشتیاں میں ایک بند کو نقصان پہنچانے کی کوشش پر 17 افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ملتان میں دریائے چناب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔
تحصیل شجاع آباد اور جلالپور پیروالہ میں 50 سے زائد مواضعات متاثر ہوئے ہیں۔ شہر کو بچانے کے لیے 8 کلومیٹر طویل عارضی بند کی تعمیر جاری ہے۔ اکبر فلڈ بند اور شیر شاہ فلڈ بند پر پانی کی سطح 394 فٹ پر برقرار ہے۔ہیڈ پنجند پر پانی کا بہا 3 لاکھ 70 ہزار کیوسک تک پہنچ چکا ہے، جبکہ چنیوٹ، علی پور اور بہاولنگر میں بھی سیلابی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔
کئی دیہات زیر آب آ چکے ہیں اور ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔نارووال میں نالہ بسنتر پر پڑنے والا 200 فٹ چوڑا اور 20 فٹ گہرا شگاف تاحال بند نہیں کیا جا سکا جس سے مقامی فصلیں اور مکانات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ کشمور میں دریائے سندھ پر گڈو بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 90 ہزار 704 کیوسک اور اخراج 3 لاکھ 60 ہزار 70 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔دریائے ستلج میں عارف والا اور لڈن کے علاقوں میں بھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔
غلام شاہ کے علاقے میں حفاظتی بند ٹوٹنے سے پانی گھروں اور فصلوں میں داخل ہو چکا ہے اور سینکڑوں افراد گھروں میں محصور ہیں۔رنگ پور میں وقتی کمی کے باوجود شہری نئے سیلابی ریلے سے خوفزدہ ہیں۔ ہیڈ تریموں پر پانی کا اخراج 5 لاکھ 26 ہزار اور ہیڈ سدھنائی پر 91 ہزار کیوسک ریکارڈ ہوا ہے۔ اوچ شریف میں ہیڈ پنجند پر پانی کی سطح 4 لاکھ 90 ہزار کیوسک تک پہنچ چکی ہے، جس سے کئی دیہات متاثر ہوئے ہیں۔
دریائے راوی کے مائی صفوراں بند سے نکلنے والا سیلابی ریلا کبیروالا کے 40 دیہات کو متاثر کر چکا ہے، جہاں 80 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔سندھ میں بھی صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ پنجاب سے آنے والا ریلا سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔ پنجند بیراج پر پانی میں 97 ہزار 706 کیوسک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس سے بہا ئو4 لاکھ 46 ہزار 820 کیوسک تک پہنچ گیا ہے۔
تریموں بیراج پر آمد و اخراج 5 لاکھ 8 ہزار 371 کیوسک، گڈو بیراج پر 3 لاکھ 66 ہزار 151، سکھر بیراج پر 3 لاکھ 29 ہزار 990 اور کوٹری بیراج پر آمد 2 لاکھ 45 ہزار جبکہ اخراج 2 لاکھ 26 ہزار 497 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔سیہون میں دریائی علاقوں کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، جبکہ محکمہ آبپاشی کمزور بندوں پر ہنگامی کام کر رہا ہے۔ملک بھر میں سیلاب کی سنگین لہر کے باعث ہنگامی صورتحال ہے۔ مقامی و صوبائی انتظامیہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ اور ریلیف اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری اطلاع دیں۔