قطر پر حملے سے پھر آشکارہوگیا اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امن کی ہر کوشش سبوتاژ کرنا چاہتا ہے،سردار مسعود خان

ہفتہ 13 ستمبر 2025 22:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 ستمبر2025ء) آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور سینئر سفارت کار سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی ہر کوشش کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ امریکہ کے حلیف اور حریف ممالک میں کوئی فرق روا رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور پوری دنیا جانتی ہے کہ قطر خلیجی ریاستوں میں امریکہ کا سب سے بڑا اور قریب ترین اتحادی ہے، جہاں امریکہ کا بڑا فوجی اڈہ قائم ہے اور ہزاروں امریکی فوجی اور جدید جنگی ساز و سامان موجود ہے۔ اس کے باوجود قطر کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ہر اس ملک کو حملے کا نشانہ بنا سکتا ہے جو فلسطین میں امن کی بات کرے یا فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے قیام کا حامی ہے۔

(جاری ہے)

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مختلف ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ اس حملے کا اصل مقصد فلسطینی رہنما خلیل الحیا کو قتل کرنا تھا، جو اس وقت قطری قیادت کے ساتھ امریکہ کی طرف سے پیش کردہ امن تجاویز پر بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پہلے بھی مختلف مواقع پر واضح اور کبھی مبہم الفاظ میں یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے ملک پر حملہ کر سکتے ہیں جو فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں یا حماس کے قائدین کو پناہ دیتا ہو۔

سردار مسعود خان کے مطابق بدقسمتی سے امریکہ اور مغربی یورپ کے طاقتور ممالک اسرائیل کو انسانی حقوق کی پاسداری کا پابند بنانے اور اس کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ قطر کے بعد اسرائیل کسی اور ملک کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

امریکہ کو قطر پر حملے کا پیشگی علم ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں سردار مسعود خان نے کہا کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کے بارے میں پیشگی اطلاع سے انکار کیا ہے اور سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان کی بھی ماضی کے برعکس امریکہ نے مخالفت نہیں کی، تاہم یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکہ کو اس حملے کا قبل از وقت علم نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حملے کی تیاری میں کئی ماہ لگتے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں، خصوصاً سی آئی اے، اسرائیل کی تیاریوں اور ارادوں سے بے خبر رہی ہوں۔ ان کے مطابق کم از کم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس منصوبے کا علم ضرور تھا۔ سردار مسعود خان نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں پندرہ اسرائیلی طیاروں نے حصہ لیا، ڈرون استعمال کیے گئے اور دس بم گرائے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اچانک کارروائی نہیں تھی بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے تحت کی گئی تھی۔

قطر کے دفاع میں ناکامی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ قطر سمیت بیشتر خلیجی ریاستوں کے دفاع کی ذمہ داری بڑی حد تک امریکہ نے سنبھال رکھی ہے، اس لیے اب دیکھنا ہوگا کہ خلیجی ممالک اس صورتحال پر امریکہ کے ساتھ کس نوعیت کی بات چیت کرتے ہیں۔ قطر کے ممکنہ ردعمل سے متعلق سوال پر سردار مسعود خان نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں خلیج تعاون کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس متوقع ہیں جن میں اس مسئلے کو زیرِ غور لایا جائے گا اور امید ہے کہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اکیلا قطر نہیں بلکہ مجموعی طور پر خلیجی ریاستیں کریں گی کہ آیا اسرائیلی حملے کا جواب دینا ہے یا نہیں، اور اگر دینا ہے تو کس انداز میں دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایران نے اسرائیلی حملے کا جواب راکٹ داغ کر دیا تھا، لیکن اس بار ردعمل کا انحصار ریاض، ابوظہبی اور دوحہ کے فیصلوں پر ہوگا۔پاکستان کے ممکنہ کردار سے متعلق سوال کے جواب میں سردار مسعود خان نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ قطر کے دوران پاکستان نے قطر کے دفاع کے بدلے پاکستان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہوگی۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان پچیس کروڑ آبادی کا ملک ہے جو انسانی اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے، لہٰذا اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہم دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے یہ چاہیں گے کہ قطر کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہو اور وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ ان کے مطابق اس وقت دونوں ممالک کے درمیان چار ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہو رہی ہے اور پاکستان قطر سے قدرتی گیس کے بڑے خریداروں میں شامل ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دوطرفہ تجارتی حجم مزید بڑھایا جائے۔