ة اسرائیل کی نسل کشی جنگی جرم ہے، نیتن یاہو کی ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبے کی سخت مذمت،محمود عباس

Cفلسطینی صدر کا اسرائیل پر شدید تنقید، غزہ کی نسل کشی اور غیر قانونی بستیوں کی توسیع کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا،اقوام متحدہ میں ویڈیو لنک خطاب

جمعرات 25 ستمبر 2025 22:55

u*دوحہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 ستمبر2025ء) فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اسرائیل جو کررہا ہے وہ صرف جارحیت نہیں بلکہ جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے، ہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ’گریٹر اسرائیل‘ کی کال کو مسترد اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ میں آج آپ سے مخاطب ہوں جب کہ ہمارے فلسطینی عوام غزہ کی پٹی میں تقریباً دو سال سے نسل کشی، تباہی، بھوک اور بے دخلی کی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ نسل کشی ’ اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں کی جا رہی ہے جنہوں نے دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کیا، جن میں اکثریت نہتے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ’ اسرائیل جو کر رہا ہے وہ صرف جارحیت نہیں بلکہ جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے، جو دستاویزی شکل میں ریکارڈ اور مانیٹر کیا جا رہا ہے، اور تاریخ کی کتابوں اور عالمی ضمیر کے صفحات میں بیسویں اور اکیسویں صدی کے سب سے بھیانک انسانی المیوں میں شمار ہو گا۔

غزہ کی صورت حال بیان کرنے کے بعد عباس نے مغربی کنارے کی طرف توجہ دلائی جہاں ’انتہا پسند اسرائیلی حکومت غیر قانونی بستیوں کی توسیع اور انہیں ضم کرنے کے منصوبوں کے ذریعے اپنی ’آباد کاری کی بیماری‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے اسرائیل کے تازہ ترین ای ون (E1) بستی منصوبے کی نشاندہی کی ’جو مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا اور مقبوضہ یروشلم کو اس کے گرد و نواح سے الگ کر دے گا اور دو ریاستی حل کے امکان کو ختم کر دے گا، جو بین الاقوامی قانون اور متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے کہا کہ’ ہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ’گریٹر اسرائیل‘ کی کال کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا اس میں ’خود مختار عرب ریاستوں میں توسیع اور اس کے ساتھ ساتھ برادر ملک قطر پر وحشیانہ حملہ‘ بھی شامل ہے۔ انہوں نے اس حملے کو ’ایک خطرناک اور کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔محمود عباس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارے عوام نے جو کچھ بھی سہا، اس کے باوجود ہم سات اکتوبر کو حماس کے کیے ہوئے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانا اور یرغمال بنانا ’فلسطینی عوام یا ان کی آزادی و آزادی کی جائز جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ ’حماس کو حکمرانی میں کوئی کردار نہیں ملے گا ‘ اور یہ کہ ’حماس اور دیگر گروہوں کو ریاست سازی کے عمل کے حصے کے طور پر اپنے ہتھیار فلسطینی قومی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے تاکہ ایک ریاست، ایک قانون اور ایک ہی قانونی سکیورٹی فورس قائم کی جا سکے۔

ہم یہ دہراتے ہیں کہ ہم مسلح ریاست نہیں چاہتے۔ محمود عباس نے روشنی ڈالی کہ ’سالہا سال ہمارے عوام شہادت، گرفتاریوں، بستیوں کی تعمیر اور پیسوں، جائیداد اور زمینوں کی چوری کے زیر سایہ رہے ہیں اور یہ سب کچھ بغیر کسی روک اور احتساب کے جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ’اقوام متحدہ میں ایک ہزار سے زیادہ قراردادیں منظور ہوئیں مگر ایک بھی نافذ نہیں ہوئی۔

بہت سی کوششیں اور بین الاقوامی اقدامات ہوئے مگر اس المناک صورت حال کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی حکام نے 1993 کے اوسلو معاہدے پر عمل کیا۔ ’ہم نے اپنے اداروں کی تشکیل نو کی، اپنے قومی چارٹر میں ترمیم کی، تشدد اور دہشت گردی کو مسترد کیا اور امن کی ثقافت اپنائی۔ ہم نے ایک جدید فلسطینی ریاست کے ادارے بنانے کی پوری کوشش کی جو اسرائیل کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکے، لیکن اسرائیل نے دستخط شدہ معاہدوں کی پاسداری نہیں کی اور انہیں منظم طریقے سے کمزور کیا۔

محمود عباس نے دنیا بھر کی ان اقوام اور تنظیموں کا شکریہ ادا کیا ’جنہوں نے فلسطینی عوام کے حقوق، آزادی اور جنگ، تباہی اور بھوک کے خاتمے کے لیے احتجاج کیا۔انہوں نے اپیل کی کہ فلسطینی یکجہتی کو یہود دشمنی کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ انہوں نے کہا: ’ہم فلسطینی کاز کے ساتھ یکجہتی اور یہود دشمنی کو گڈمڈ کرنے کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے اصولوں اور اقدار کے خلاف ہے اور ہم بین الاقوامی امن کانفرنس کے نتائج کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

فلسطینی صدر نے کئی نکات پیش کیے جن میں غزہ میں جنگ کا فوری اور مستقل خاتمہ، انسانی ہمدردی کی امداد کا بغیر کسی شرط کے اقوام متحدہ کی تنظیموں بشمول انروا کے ذریعے داخل ہونا اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خاتمہ اور دونوں جانب تمام یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔اس کے علاوہ غزہ پٹی سے مکمل قبضے کا انخلا اور بے دخلی کے منصوبوں، بستیوں، آبادکاروں کی دہشت گردی، فلسطینی زمین اور جائیداد کی چوری اور مقدس مقامات پر حملوں کا خاتمہ بھی ان کے پیش کردہ نکات میں شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست ایک عبوری انتظامی کمیٹی کے ذریعے غزہ کی پٹی کی مکمل ذمہ داری سنبھالے، جو عرب اور بین الاقوامی حمایت اور اقوام متحدہ کی چھتری میں غزہ کے شہریوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی موجودگی کے ساتھ فلسطینی حکومت کے ایک وزیر کی سربراہی میں ہو اور بعد میں مغربی کنارے سے رابطہ قائم ہو۔انہوں نے کہا کہ غزہ پٹی کے رہائشیوں کو اپنی زمینوں پر قائم رہنے کی ضمانت دی جائے اور غزہ اور مغربی کنارے دونوں کی بحالی و تعمیر نو کا منصوبہ نافذ کیا جائے۔

محمود عباس نے کہا کہ فلسطین کو بین الاقوامی برادری کی مدد درکار ہے تاکہ حکومتی اصلاحات کی جا سکیں اور ’ جنگ کے خاتمے کے ایک سال کے اندر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرائے جا سکیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کمیٹی عبوری آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔فلسطین ٹرمپ، سعودی عرب، فرانس، اقوام متحدہ ’ اور تمام شراکت داروں کے ساتھ اس امن منصوبے پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے جسے 22 ستمبر کی کانفرنس میں منظور کیا گیا تھا تاکہ ایک منصفانہ امن اور علاقائی تعاون کی طرف پیش رفت کی جا سکے۔

’مصائب زندہ رہنے اور بقا کے عزم کو شکست نہیں دے سکیں گے ،فلسطینی صدر نے کہا کہ ’چاہے ہمارے زخم کتنے ہی گہرے ہوں اور یہ مصائب کتنے ہی طویل ہوں، یہ ہمارے جینے اور بقا کے عزم کو شکست نہیں دے سکیں گے۔انہوں نے کہا: ’ آزادی کی صبح طلوع ہو گی اور فلسطین کا پرچم ہمارے آسمانوں پر بلند ہو گا، جو وقار، ثابت قدمی اور قبضے کے طوق سے نجات کی علامت ہو گا۔ فلسطین ہمارا ہے۔ یروشلم ہمارے دل کا جوہر اور ہماری ابدی دارالحکومت ہے۔ ہم اپنا وطن نہیں چھوڑیں گی