مسلم رہنماؤں کو پیش کیے گئے ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبے کی تفصیلات سامنے آگئیں

یہ منصوبہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، مصر، اردن، ترکیے، انڈونیشیا اور پاکستان کے سربراہان کو پیش کیا گیا اس منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو مدنظر رکھا گیا ،یہ ہے کہ اس منصوبے میں اصل میں کیا شامل ہی ،امریکہ ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے،رپورٹ

جمعرات 25 ستمبر 2025 23:05

مسلم رہنماؤں کو پیش کیے گئے ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبے کی تفصیلات سامنے ..
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2025ء)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ غزہ میں امن کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے۔یہ منصوبہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، مصر، اردن، ترکیے، انڈونیشیا اور پاکستان کے سربراہان کو پیش کیا گیا اور اب غیر ملکی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے اس حوالے سے کچھ تفصیلات رپورٹ کی ہیں۔

امریکا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو مدنظر رکھا گیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اس منصوبے میں اصل میں کیا شامل ہی ۔اے ایف پی کی جانب سے رپورٹ کی گئیں تفصیلات کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔

(جاری ہے)

عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور غزہ پر قبضے کی کسی بھی کوشش کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ٹرمپ کے مشرقِ وسطی کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ یہ ٹرمپ کا 21 نکاتی امن منصوبہ ہے جو اسرائیل اور خطے کے تمام ہمسایہ ممالک کے خدشات کو حل کرتا ہے۔امریکی ویب سائٹ ایکزیوس کے مطابق ٹرمپ نے عرب اور مسلم رہنماں کو خبردار کیا کہ جنگ فورا ختم ہونی چاہیے ورنہ اسرائیل مزید عالمی تنہائی کا شکار ہوگا۔

ذرائع کے مطابق امریکی منصوبے میں غزہ کے لیے ایک نیا نظام حکومت تجویز کیا گیا ہے جس میں حماس شامل نہیں ہوگی۔اسرائیل پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ حماس کا مستقبل کی انتظامیہ میں کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔عرب اور اسلامی رہنماؤں نے زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے اور اسے غزہ اور مغربی کنارے دونوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے بااختیار بنایا جائے۔

رپورٹس کے مطابق منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار، ایک مشترکہ سکیورٹی فورس (جس میں فلسطینیوں کے ساتھ عرب و مسلم ممالک کے فوجی شامل ہوں گی)اور خطے کے ممالک سے مالی مدد شامل ہے تاکہ تعمیرِ نو مدد اور نئی انتظامیہ کو سہارا دیا جا سکے۔عرب و اسلامی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی کنارے کے حصوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کوئی کوشش نہ ہو اور نہ ہی مقبوضہ بیت المقدس میں مذہبی مقامات کی حیثیت تبدیل کی جائے۔اس کے علاوہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غزہ کے شہریوں کو بے دخل کرنے یا ان کی واپسی میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہ دی جائے۔ایکزیوس کے مطابق ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے کسی حصے ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔