Live Updates

افغان افواج کی بلااشتعال فائرنگ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے، تجزیہ کار و ماہرین

اتوار 12 اکتوبر 2025 14:50

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اکتوبر2025ء) افغان فورسز کی پاکستانی چیک پوسٹوں پر حالیہ بلااشتعال فائرنگ نے خارجہ تعلقات اور دفاعی ماہرین میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے جنہوں نے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہفتے کی شب افغان فورسز نے باجوڑ، کرم، اپر دیر، چترال، برامچہ اور جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ میں واقع پاکستانی سکیورٹی چوکیوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوری اور مؤثر جواب دیتے ہوئے حملوں کو کامیابی سے پسپا کیا اور حملہ آوروں کو بڑے نقصانات پہنچائے۔ ماہرین نے ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی زیر قیادت افغان عبوری حکومت اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

سینئر دفاعی تجزیہ کار اور سابق فاٹا ریجن میں قانون و انتظام کے سابق سیکرٹری بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے اے پی پی کو بتایا کہ یہ حملے دوحہ معاہدے کی براہ راست خلاف ورزی ہیں جس میں طالبان حکومت نے عہد کیا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان کے خلاف حملوں کےلیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں جن میں فتنۃ الخوارج اور ٹی ٹی پی شامل ہیں، کی موجودگی اور افغانستان میں ان کے تربیتی کیمپ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان حکومت دوحہ میں کیے گئے امن وعدوں پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس افغان سرزمین سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کےلیے دفاعی اور جارحانہ اقدامات اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔

پشاور میں ایک حالیہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے فتنۃ الخوارج کے حامیوں اور سہولت کاروں کو سخت تنبیہ جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ انہیں مکمل کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے سرحد پار دراندازی اور عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنے میں ناکامی پر طالبان انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کو نبھانے میں ناکام رہی ہے۔

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی ہندوستان کے حالیہ دورے پر کشمیر کے خلاف دیے گئے اپنے غیر ذمہ دارانہ اور غیر منطقی بیانات سے اپنی حکومت کی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کر سکتے، طالبان کی افغانستان کے اندر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور عسکریت پسندوں کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے میں ناکامی علاقائی امن اور استحکام کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

ماہرین نے ہندوستان اور افغانستان کے حالیہ مشترکہ اعلامیہ پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور اسے نئی دہلی کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی ایک حکمت عملی قرار دیا۔ بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے اس اعلامیے کو کشمیریوں کے خلاف اور ہندوستان کی طرف سے موجودہ کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کی ایک گہری سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف علاقائی استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے جو متنازعہ علاقے جموں و کشمیر سے متعلق ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر اعجاز خان نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان سے ہونے والے سرحد پار حملوں کا بار بار نشانہ بننے کے باوجود کافی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، افغان طالبان حکومت کی جانب سے کالعدم فتنۃ الخوارج اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں نہ روکنے پر پاکستان کے پاس اپنے شہریوں کے تحفظ کےلیے ضروری سکیورٹی اقدامات اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ڈاکٹر اعجاز خان نے آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد ہندوستان پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تصادم کو بھڑکانے کی کوشش کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے 10 مئی کو سات بھارتی جنگی طیارے، بشمول رافیل جیٹ، مار گرائے تھے، جس سے ہندوستان ابھی تک سفارتی یا فوجی طور پر نہیں سنبھل پایا ہے۔

جامعہ پشاور کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ ہلالی نے امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کی صورتحال کو خطے کے عدم استحکام کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں 7.2 بلین سے زائد مالیت کے ہتھیار اور سازوسامان چھوڑ دیا ہے جو اب مختلف عسکریت پسند گروہوں کے ہاتھ لگ کر خطے میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہلالی نے ہندوستان کے ساتھ افغانستان کی غلط سفارتی کوششوں پر تنقید کی اور کہا کہ افغان وزیر خارجہ کو پاکستان کی دہائیوں پرانی حمایت بالخصوص 1979 سے 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کو تسلیم کرنا چاہیے تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سرحد پار تشدد اور افغانستان کی منفی سفارتی پوزیشننگ کے ساتھ ساتھ فتنۃ الخوارج کی دراندازی نے علاقائی امن اور استحکام کے بارے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ماہرین فوری بین الاقوامی توجہ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ دوحہ امن معاہدے اور اقوام متحدہ کے چارٹر جیسے معاہدوں کا نہ صرف احترام کیا جائے بلکہ ان پر عمل بھی کیا جائے، جیسے جیسے سکیورٹی کی صورتحال میں تبدیلی آرہی ہے، پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کی مزید خلاف ورزیوں یا اپنے لوگوں کےلیے خطرات کو برداشت نہیں کرے گا۔
Live پاک افغان کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات